قسط نمبر 30
سیدنا عمر بن عبد العزیزؒ نے نیک سیرت بیٹے کو جواب دیتے ہوئے فرمایا: تھوڑا آرام کرنے کے بعد نماز ظہر لوگوں کے ساتھ پڑھوں گا اور پھر یقیناً مظلوموں کی فریادرسی ہوگی اور ہر ایک کو اس کا حق دیا جائے گا، کوئی محروم نہیں رہے گا۔
بیٹے نے کہا: امیر المؤمنین! اس کی کون ضمانت دیتا ہے کہ آپ ظہر تک زندہ رہیں گے؟
بیٹے کی یہ بات سن کر حضرت عمر بن عبد العزیزؒ تڑپ اٹھے، آنکھوں سے نیند جاتی رہی، تھکے ہوئے جسم میں دوبارہ توانائی لوٹ آئی اور یک دم بیٹھ گئے اور فرمایا: بیٹا ذرا میرے قریب آؤ۔ بیٹا قریب ہوا تو اسے گلے لگا کر پیشانی کو بوسہ دیا اور فرمایا: (ترجمہ) خدا کا شکر ہے، جس نے مجھے ایسا نیک فرزند عطا کیا، جو دینی معاملے میں میری اعانت کرتا ہے۔
پھر آپؒ اٹھے اور حکم دیا کہ یہ اعلان کر دیا جائے کہ جس پر کوئی ظلم ہوا ہے، وہ اپنا مقدمہ خلیفہ کے سامنے آکر پیش کرے۔
یہ امیر المؤمنین کا بیٹا عبد الملک کون ہے؟ اس نوجوان کی خوبی کیا ہے، جس کے متعلق لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس نے اپنے والد کو عبادت گزاری پر اکسایا، آئیے! اب اس نیک وصالح نوجوان کا قصہ ابتداء سے آپ کو سناتے ہیں۔
امیر المؤمنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے بارہ بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ تمام اولاد متقی پرہیزگار اور نیک تھی۔ اپنے بہن بھائیوں میں حضرت عبد الملکؒ ایک چمکتے ستارے کی طرح تھے یا جس طرح پورے ہار کے اندر بیچ والا حصہ ہوتا ہے۔ اس طرح نیک تھے اور نیک و پرہیزگار ہونے کے ساتھ بالکل بھولے بھالے نہیں تھے، بلکہ بہت ذہین اور ماہر تجربہ کار لوگوں کی طرح سمجھ رکھتے تھے۔
یوں تو وہ نوجوان تھے، لیکن عقل و سمجھ میں بوڑھوں کو بھی پیچھے کر دیتے تھے۔ انہوں نے بچپن ہی سے اپنی زندگی نیکی کے کاموں میں اور گناہوں سے بچنے میں گزاری۔ ان میں خاندان فاروق اعظمؓ کے اوصاف پائے جاتے تھے، خاص طور پر تقویٰ، پاکیزگی اور خشیت الٰہی میں ان پر حضرت ابن عمرؓ کا مزاج غالب تھا۔
عبد الملکؒ کی عبادت میں مشغولیت:
ان کے چچا زاد بھائی عاصمؒ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دفعہ دمشق گیا اور وہاں اپنے چچا زاد بھائی عبد الملکؒ کے پاس ٹھہرا، ابھی اس کی شادی نہیں ہوئی تھی، ہم نے عشاء کی نماز پڑھی اور سونے کے لیے دونوں اپنے اپنے بستر پر لیٹ گئے۔ عبد الملک نے چراغ بجھا دیا، ہم دونوں نیند کے ارادے سے لیٹ گئے، جب آدھی رات کو میری آنکھ کھلی توکیا دیکھتا ہوں کہ عبد الملک اندھیرے میں کھڑا نماز پڑھ رہا ہے اور قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت کر رہا ہے:
(ترجمہ) ’’بھلا دیکھو تو اگر ہم ان کو چند سال تک عیش میں رہنے دیں، پھر جس کا ان سے وعدہ ہے وہ ان کے سر پر آپڑے، تو ان کا وہ عیش کس کام آسکتا ہے۔‘‘
میں نے دیکھا کہ وہ اسی آیت کی بار بار تلاوت کر رہا ہے اور روتا جا رہا ہے، مجھے ڈر لگا کہ کہیں روتے روتے اس کا انتقال نہ ہو جائے، تو میں نے قدرے اونچی آواز سے کلمہ طیبہ پڑھا۔ میں نے یہ جملہ اس انداز میں کہا جیسے کوئی نیند سے بیدار ہوتے وقت کہتا ہے۔ میری نیت یہ تھی کہ وہ میری آواز سن کر رونا بند کردے، ایسا ہی ہوا جب اس نے میری آواز سنی وہ خاموش ہوگیا، ایسا خاموش ہوگیا جیسے وہ کمرے میں موجود ہی نہیں۔
علم میں مہارت:
اس نیک وصالح نوجوان نے اکابر علمائے کرام سے قرآن کریم اور احادیث نبویہ کا علم حاصل کیا اور اس میں اتنی مہارت پیدا کی، کہ شام کے علماء و فقہاء کی مجلس میں بیٹھ کر ان سے علمی گفتگو کیا کرتا تھا اور ان پر فوقیت حاصل کرتا تھا۔
ایک مرتبہ امیرالمؤمنین حضرت بن عبدالعزیزؒ نے شامی علماء و فقہاء کو اکٹھا کیا اور ان سے یہ مسئلہ دریافت کرتے ہوئے فرمایا:
اے علمائے کرام اور فقہائے عظام! میں نے تم کو اس لیے دعوت دی ہے کہ تم سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں، میرے خاندان میں سے جن اشخاص نے لوگوں کا مال ظلم سے چھینا ہے، ان کے متعلق آپ کہ کیا رائے ہے؟ کیا میرے ذمہ ہے کہ ان لوگوں کا مال لوٹاؤں؟
سب نے یہ جواب دیا: اے امیرالمؤمنین! یہ کام آپ کے دور حکومت میں نہیں ہوا، اس کی ذمہ داری آپ پر نہیں آتی، اس کا گناہ اسی پر ہوگا، جس نے مال چھینا ہے۔ آپ بری الذمہ ہیں، لیکن علماء کے اس بیان سے آپؒ مطمئن نہ ہوئے۔ ایک عالم جو دیگر علماء سے مختلف رائے رکھتے تھے، فرمانے لگے:
امیرالمؤمنین! آپ اپنے بیٹے عبد الملک کو بلائیں، وہ علم، فقہ اور عقل و سمجھ داری میں ایک خاص درجہ رکھتا ہے، اس مسئلے میں اس کی رائے دریافت کریں، انہیں بلایا گیا۔ جب عبد الملک پیغام کے مطابق دربار خلافت میں پہنچے تو امیر المؤمنین نے کہا:
( ترجمہ) بیٹا! ان اموال کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے، جو ہمارے چچا کے بیٹوں نے لوگوں سے چھینے ہیں؟ کیوں کہ مظلوم لوگ اس وقت اپنا حق وصول کرنے کے لیے میرے پاس آئے ہوئے ہیں اور ہمیں یہ بھی معلوم ہو چکا ہے کہ چھینے ہوئے مال پر ان کا ہی حق ہے۔
(جاری ہے)