حصہ ششم
سادگی کی شادی کا عمدہ نمونہ:
حضرت تھانویؒ اپنے چھوٹے بھائی کی شادی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’میاں محمد مظہر کی شادی بالکل سادی ہوئی تھی، صرف ایک بہلی تھی، اس میں تو مظہر اور ایک مولوی شبیر جو اس وقت بچے تھے، ان کو اس لئے ساتھ لے لیا تھا کہ شاید گھر میں آنے جانے یا کسی بات کے کہلانے کی ضرورت ہو۔
وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہاں بھی کوئی گڑبڑ نہیں، صرف خاص خاص عزیزوں کو دعوت ہے، جن کی تعداد چھ، سات سے زائد نہ تھی اور یہ لوگ بھی وہ تھے جو خاندان کے تھے، مگر یہ لوگ محض اس وجہ سے خفا تھے کہ رسوم کیوں نہیں کی گئیں۔
مجھ کو جب یہ معلوم ہوا تو میں نے لڑکی والوں سے کہا کہ صاف کہہ دو اگر جی چاہے تو شریک ہو جائیں، ورنہ اپنے گھر بیٹھے رہیں، ہمیں ان کے شریک ہونے کی ضرورت نہیں، پہلے تو ان لوگوں نے دعوت ہی قبول نہ کی تھی، مگر میرا یہ صفائی کا جواب سن کر سب سیدھے ہوگئے اور سب ہاتھ دھو دھو کر دسترخوان پر آکے بیٹھ گئے۔
بعد میں معلوم ہوا کہ لڑکی کی ماں اس اختصار (اور سادگی) سے بڑی شکر گزار ہوئیں اور کہنے لگیں: اگر زیادہ بکھیڑا ہوتا تو میرے پاس ایک سونے کا ہار تھا، وہ بھی جاتا اور قرض لینا پڑتا۔
یہ لڑکی کی ماں میرے بڑے گھر کی حقیقی خالہ ہوتی تھیں، اس لئے میں بھی ان کو عرفاً خالہ ہی کہتا تھا، میں نے ان سے پوچھا کہ لڑکی کو کس وقت رخصت کرو گی؟
کہنے لگیں: جلدی تو ہو نہیں سکتی، اس لئے کہ جلدی میں نہ تو کچھ کھائو گے نہ ٹھہرو گے۔ میں نے کہا کہ کھانا تو پکا کر ساتھ کردو، جہاں بھوک لگے گی کھا لیں گے اور ٹھہر نے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جب انہوں نے پھر اپنی رائے کا اعادہ کیا تو میں نے کہا: اچھا جب تم رخصت کروگی ہم اسی وقت چلے جائیں گے۔ لیکن یہ بات یاد رکھو کہ اگر دیر سے رخصت کیا تو ظہر کی نماز کا وقت راستہ میں ہوگا اور میں اپنے اہتمام میں لڑکی کی نماز قضاء نہ ہونے دوں گا تو لڑکی کو گاڑی سے اترنا پڑے گا اور یہ بھی تم سمجھتی ہو کہ لڑکی نئی نویلی دلہن ہوگی اور عمدہ کپڑے پہنے ہوئے گی، عطر تیل خوشبو وغیرہ بھی لگا ہوگا اور یہ مشہور ہے کہ کیکر وغیرہ کے درخت پر بھتنی (چڑیل) وغیرہ رہا کرتی ہیں۔ سو اگر کوئی بھتنی چمٹ گئی تو میں ذمہ دار نہیں۔
چونکہ عورتوں کے مذاق کے مطابق گفتگو تھی۔ سمجھ میں آگئی۔ فوراً کہنے لگیں: نہ بھائی میں نہیں روکتی، جب تمہارا جی چاہے جا سکتے ہو، میں نے کہا: فجر کی نماز کے بعد فوراً ہی سوار کردو۔ انہوں نے قبول کر لیا۔
اب جب صبح ہوئی اور چلنے کا وقت ہوا تو ایک رسم ہے ’’بکھیر‘‘ کہ دلہن کو رخصت کے وقت بستی کے اندر اندر کچھ روپے پیسے کی بکھیر کی جاتی ہے۔ (یعنی لٹائے جاتے ہیں) میں نے یہ کیا کہ کچھ روپے مساکین کو تقسیم کردیئے اور کچھ مسجدوں میں دے دیئے۔ محض اس وجہ سے کہ لوگ بخل و دناء ت کا شبہ نہ کریں۔
اس سادگی سے متعلق یہ روایت سنی گئی ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ شادی اس کو کہتے ہیں کہ قلب کے اندر تازگی، شفتگی، انشراح معلوم ہوتا ہے، یہ دنیا داروں نے کہا، واقعی شریعت پر عمل کرنے سے ایک نور پیدا ہوتا ہے۔
(الافاضات الیومیہ صفحہ 360 تا 361 جلد 2)
مفتی صاحب کی صاحبزادی کا نکاح
مفتی احمد ممتاز حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحبؒ اور حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحبؒ کے خلیفہ ہیں۔ آپ کا یہ واقعہ حضرت فیروز میمن صاحب نے سنایا کہ ’’ایک مرتبہ مفتی صاحب دوپہر میں گھر تشریف لائے تو آپ کی صاحبزادی گھر کا جھاڑو لگا رہی تھی، آپ نے اپنی اہلیہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ صاحبزادی کو تیار کردو، آج عصر کے بعد اس کا نکاح ہے۔ چنانچہ عصر کی نماز کے بعد اس بچی کا سادگی کے ساتھ نکاح ہوگیا اور رخصتی ہوگئی۔‘‘ (جاری ہے)