حضرت رابعہ بصریؒ اور طلب علم

حضرت حسن بصریؒ ایک مرتبہ حضرت رابعہ بصریہؒ کے عبادت کدہ پر تشریف لائے اور ان سے درخواست کی کہ آپ نے جس طرح تکلیفوں کے ساتھ علوم حاصل کیے، ان کا تذکرہ فرمائیں۔
فرماتی ہیں کہ میں نے چند ٹوپیاں بنی تھیں تاکہ انہیں فروخت کروں اور ان سے روزی کا سامان حاصل کروں، چنانچہ وہ میں نے دو درہم میں بیچ ڈالیں۔
پھر مجھے خوف ہوا کہ اگر میں دونوں درہموں کی حفاظت پر توجہ دوں گی تو میرا علم ضائع ہو جائے گا، چنانچہ میں نے ان درہموں سے روزی کا سامان حاصل کیا اور تحصیل علم میں مصروف ہوگئی، یوں میں اپنے آپ سے بے خبر ہو کر پوری توجہ سے علم حاصل کرتی رہی، یہاں تک کہ رب تعالیٰ نے مجھے علم میں عظیم الشان مرتبہ عطا فرمایا۔ (مخزن صفحہ نمبر 250)
بھروسہ!
حضرت حبیبؒ ایک مرتبہ وضو کر رہے تھے اور انہوں نے اپنی پوستین نکال کر ایک طرف رکھ دی تھی، حضرت حسن بصریؒ وہاں سے گزرے اور انہوں نے آپ کی پوستین کو ایک طرف پڑے ہوئے دیکھا تو اس کی حفاظت کے لیے رک گئے۔ حضرت حبیبؒ وضو سے فارغ ہوئے تو حضرت حسن بصریؒ نے پوچھا کہ آپ نے اپنی پوستین کسی کے بھروسے ایک طرف چھوڑ دی تھی، اگر کوئی اسے لے جاتا تو؟
حضرت حبیبؒ نے فرمایا اس کے بھروسے پر جس نے آپ کو اس کی نگہبانی پر مقرر کر دیا۔ (مخزن صفحہ نمبر 240)
عارضی گھر!
حضرت مطرفؒ کے گھر کی دیوار ایک طرف کو جھک گئی، لوگوں نے کہا آپ اسے مرمت کیوں نہیں کرتے؟ آپ نے فرمایا گھر والا (مالک) ہمیں اس گھر میں رہنے نہیں دے گا کہ ہم اس کو مرمت کریں۔
پھر فرمایا حضرت نوحؑ نے باوجود اس قدر طویل عمر کے کھجور کی چھال کی ایک جھونپڑی بنا رکھی تھی، لوگوں نے کہا کہ اگر آپ اپنے لیے گھر بنا لیں تو اچھا ہو۔
آپؑ نے فرمایا: جو چند روز تک مر جائے گا، اس کے واسطے اتنا ہی بہت ہے، پھر فرمایا: لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ دین کو پست کریں گے اور عمارتوں کو بلند بنائیں گے۔ (مخزن صفحہ نمبر 244)
انوکھی خواہش
ایک آدمی مسجد میں جھاڑو لگا کر اس کی مٹی جمع کرتا اور پھر اس مٹی سے اینٹیں بناتا، لوگوں نے اس کی وجہ دریافت کی تو کہنے لگا یہ مبارک مٹی ہے، اس لیے میری خواہش ہے کہ میری قبر اس مٹی کی بنی ہوئی اینٹوں سے بنائی جائے۔
چنانچہ جب وہ مرا تو اس کی قبر اسی کی بنائی ہوئی اینٹوں سے تیار کی گئی، لیکن کچھ اینٹیں بچ گئیں، لوگوں نے انہیں ایک گھر کی تعمیر میں استعمال کیا، اتفاقاً بارش ہوئی تو اینٹیں بکھر کر ٹوٹ گئیں اور ان میں سے دینار نکل آئے، لوگوں نے جا کر اس کی قبر کی تمام اینٹوں کو توڑا تو وہ سب دیناروں سے بھری ہوئی تھیں۔ (مخزن)
سچ بولنے کا نتیجہ!
ایک مرتبہ حجاج بن یوسف نے خطبہ دیا اور بہت لمبا کر دیا تو کافی دیر بعد لوگوں کے مجمع میں سے ایک شخص اٹھا اور کہنے لگا کہ اے حجاج! نماز پڑھاؤ، کیوں کہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرے گا اور خدا تجھے معزز نہیں رکھے گا، اس پر حجاج نے اسے قید کرنے کا حکم دے دیا۔
اس قیدی کی قوم کے لوگ حجاج کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ وہ دیوانہ ہے اور درخواست کی کہ وہ اس قیدی کو چھوڑ دے، حجاج نے کہا کہ اگر وہ دیوانگی کا اقرار کرے گا تو میں اسے چھوڑ دوں گا۔
پس اس قیدی سے اس بارے میں کہا گیا کہ کہہ دو کہ میں دیوانہ ہوں، اس نے کہا: خدا کی پناہ! میں تو ہرگز یہ الفاظ نہ کہوں گا، کیوں کہ رب تعالیٰ نے مجھے کسی مرض میں مبتلا نہیں کیا ہے، اس نے تو مجھے تندرستی عطا فرمائی ہے۔
آخر یہ بات حجاج تک پہنچی، اس کی حق گوئی اور راست گوئی کے باعث اسے معاف کر دیا، معلوم یہ ہوا کہ انسان کو ہر حال میں سچ بولنا چاہیے، اسی میں نجات بھی ہے اور گناہوں سے چھٹکارا بھی۔ (مخزن)
امام شافعیؒ کی ذہانت!
حضرت امام شافعیؒ نے بے مثال ذہانت اور رحمت خداوندی کی بدولت صرف چودہ سال کی مختصر عمر میں تمام علوم دینیہ سے فراغت حاصل کرکے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا تھا، چنانچہ آپؒ کے درس میں مقامی لوگوں کے علاوہ دور دور سے معمر علمائے کرام بھی آپ کی قابلیت علمی سے فائدہ اٹھانے کے لیے شامل ہوتے تھے۔
ایک دن اثنائے درس میں دو چڑیاں لڑتی لڑتی آپ کے سامنے گریں، آپؒ نے جھٹ اپنا عمامہ اتار کر ان پر پھینک دیا، آپ کی اس بچکانہ حرکت کو دیکھ کر بعض معمر اور بڑے بڑے بزرگ اور علمائے کرام کچھ محسوس کرنے لگے۔ امام شافعیؒ اگرچہ بچے تھے، لیکن تھے تو ان کے استاد اور جواب دینے میں تیز بھی۔ فوراً کہنے لگے کہ پریشان نہ ہوں، کیوں کہ بچہ بچہ ہی ہوتا ہے، اگرچہ نبی کا بیٹا ہو۔ (مخزن اخلاق صفحہ نمبر 496)

Comments (0)
Add Comment