معارف و مسائل
بچپن میں لعب، پھر لہو میں مشغولیت رہی، جوانی میں زینت اور تفاخر کا مشغلہ ایک مقصد بنا رہا، بڑھاپا آیا، اب مشغلہ تکاثر فی الاموال والاود کا ہوگیا کہ اپنے مال و دولت کے اعداد و شمار اور اولاد و نسل کی زیادتی پر خوش ہوتا رہے، ان کو گنتا گناتا رہے ، مگر جیسے جوانی کے زمانے میں بچپن کی حرکتیں لغو معلوم ہونے لگی تھیں بڑھاپے میں پہنچ کر جوانی کی حرکتیں لغو و ناقابل التفات نظر آنے لگیں، اب بڑے میاں کی آخری منزل بڑھاپا ہے ، اس میں مال کی بہتات، اولاد کی کثرت و قوت اور ان کے جاہ و منصب پر فخر سرمایہ زندگی اور مقصود اعظم بنا ہوا ہے ، قرآن کریم کہتا ہے کہ یہ حال بھی گزر جانے والا ہے اور فانی ہے ، اگلا دور برزخ پھر قیامت کا ہے اس کی فکر کرو کہ وہ ہی اصل ہے ، قرآن کریم نے اس ترتیب کے ساتھ ان سب مشاغل و مقاصد و دنیویہ کا زوال پذیر ، ناقص ، ناقابل اعتماد ہونا بیان فرما دیا اور آگے اس کو ایک کھیتی کی مثال سے واضح فرمایا:
(آیت) کَمَثَلِ غَیثٍ… الخ: غیث کے معنی بارش کے ہیں اور لفظ کفار جو مومنین کے مقابلہ میں آتا ہے، اس کے یہ معنی تو معروف و مشہور ہی ہیں، اس کے ایک دوسرے لغوی معنی کاشتکار کے بھی آتے ہیں، آس آیت میں بعض حضرات نے یہی معنی مراد لئے ہیں اور مطلب آیت کا یہ قرار دیا ہے کہ جس طرح بارش سے کھیتی اور طرح طرح کی نباتات اگتی ہیں اور جب وہ ہری بھری ہوتی ہیں تو کاشتکار ان سے خوش ہوتا ہے اور بعض دوسرے حضرات مفسرین نے لفظ کفار کو اس جگہ بھی معروف معنی میں لیا ہے کہ کافر لوگ اس سے خوش ہوتے ہیں، اس پر جو یہ اشکال ہے کہ کھیتی ہری بھری دیکھ کر خوش ہونا تو کافر کے ساتھ مخصوص نہیں، مسلمان بھی اس سے خوش ہوتا ہے، اس کا جواب حضرات مفسرین نے یہ دیا ہے کہ مومن کی خوشی اور کافر کی خوشی میں بڑا فرق ہے، مومن خوش ہوتا ہے تو اس کی فکر کا رخ حق تعالیٰ کی طرف پھر جاتا ہے، وہ یقین کرتا ہے کہ یہ سب کچھ اس کی قدرت و حکمت اور رحمت کا نتیجہ ہے، وہ اس چیز کو زندگی کا مقصود نہیں بناتا، پھر اس خوشی کے ساتھ اس کو آخرت کی فکر بھی ہر وقت لگی رہتی ہے، اس لئے جو مومن ایمان کے تقاضہ کو پورا کرتا ہے، دنیا کی بڑی سے بڑی دولت پر بھی وہ ایسا خوش اور مگن اور مست نہیں ہوتا، جیسا کافر ہوتا ہے، اس لئے یہاں خوشی کا اظہار کفار کی طرف منسوب ہے۔(جاری ہے)