حضرت شیخ سارنگ سہروردیؒ بڑے صاحبِ کرامت، بلند ہمت اور رفیع الشان بزرگ گزرے ہیں۔ ترک و تجرید میں آپؒ اپنے زمانے میں بینظیر تھے۔ شیخ میناؒ ملفوظات میں لکھتے ہیں کہ آپ ہندوئوں کے ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے، پھر اسلام سے مشرف ہوئے، جب ان کی بہن کا عقد نکاح سلطان محمد بن فیروز شاہ سے ہوا تو بادشاہ کے ہاں رہنے لگے۔ آپ کو ملک سارنگ کہتے تھے۔ آپ کا شمار بادشاہ کے اراکین دولت میں ہوتا تھا۔ ولایت مالوہ میں شہر سارنگ پور آپ کا آباد کیا ہوا ہے۔
جب مخدوم جہانیاں اور شیخ راجو قتال دہلی تشریف لائے ہوئے تھے، اس وقت ملک سارنگ ایک صاحب جمال نوجوان تھے، سلطان فیروز شاہ اکثر کھانا اور دیگر اشیاء ملک سارنگ کے ذریعے حضرت مخدوم کی خدمت میں ارسال کرتا تھا۔ ایک دن شیخ راجو قتالؒ نے کمال شفقت سے فرمایا کہ ملک سارنگ اگر تم پنجگانہ نماز پر قائم ہو جائو تو میں مخدوم جہانیاں کا پس خوردہ تجھے دیا کروں گا۔ چونکہ آپ کا وقت آچکا تھا، یہ بات فوراً قبول کرلی اور پابند نماز ہوگئے۔ ایک دن پھر شیخ راجوؒ نے آپ سے کہا کہ اگر نماز اشراق اور چاشت بھی پڑھو تو میں کھانا تمہارے ساتھ کھایا کروں گا، یہ بات بھی آپ نے قبول کرلی۔
ایک دفعہ آپ نے مخدوم جہانیاں اور شیخؒ کے ساتھ مل کر کھانا کھایا۔ اس سے نور معرفت آپ کے دل میں سرایت کر گیا، باطن روشن ہوگیا، دنیا سے نفرت پیدا ہوگئی اور معبود حقیقی کی تلاش میں محو ہوگئے۔
آپ نے سلوک کی راہ میں قدم رکھا۔ شیخ قوام الدین کو جو حضرت مخدوم جہانیاں کے مرید اور خلیفہ ہیں، اپنے زمانے کے مشہور بزرگ تھے، آپ ان سے بیعت ہوئے اور انہی سے خرقہ خلافت پایا۔ منقول ہے کہ ابتدا میں آپ نے اپنے جمال حال امراء کے لباس میں پوشیدہ رکھا اور اپنے کام میں مشغول رہے۔ جب سلطان محمود بن سلطان محمد کا وقت آیا تو آپ نے یکبارگی اسباب دولت و حشمت ختم کر کے تجرید و تفرید میں قدم رکھا اور اپنے بال بچوں سمیت پیادہ زیارت حرمین شریفین کیلئے ایک قافلہ کے ساتھ روانہ ہوئے۔ چونکہ پیادہ چلنے کی عادت نہ تھی، پائوں میں آبلے پڑگئے اور قافلے سے پیچھے رہ گئے، حق تعالیٰ کی مہربانی سے منزل مقصود پر پہنچ گئے، کچھ عرصہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں رہنے کے بعد واپس ہندوستان تشریف لائے اور شیخ یوسف بدھ ایرحیؒ جو اپنے وقت کے شیخ الشیوخ تھے، کی خدمت میں پیوست ہوگئے۔
شیخ سارنگؒ کبھی کبھی اپنے پیر شیخ قوام الدین کی خدمت میں لکھنؤ جاتے اور فیض حاصل کرتے تھے، جب مخدوم کی وفات کا وقت آیا تو فرمایا کہ شیخ سارنگ فی الحقیقت اس وقت موجود نہیں ہے تاکہ اپنے مشائخ کا خرقہ ان کے حوالے کرتا۔ لہٰذا قبر میں ساتھ لے جارہا ہوں، البتہ ایک بے آستین کفن جو فقرائے اہل تجرد کا لباس ہے، چھوڑ جاتا ہوں۔ یہ شیخ سارنگ کے حوالے کر دینا۔ آپ کی وفات کے تیسرے دن شیخ سارنگ پہنچ گئے اور اس کفن کو اپنی موت کا سامان بنا کر رکھ دیا۔ چونکہ آپ کو اپنے پیر سے بے حد محبت تھی، لہٰذا ان کے مزار پر رہنا چاہتے تھے، لیکن اژدھام (ہجوم) خلق سے آپ کو نفرت تھی، اس لئے شہر لکھنؤ سے دو تین کوس دور موضع سارنگ پور عرف منج کنوہ جو پر گنہ فتح پور میں ہے، جا کر وہاں ویرانے میں سکونت اختیار کرلی۔ حضرت شیخ راجو قتالؒ کے خرقہ اور دیگر تبرکات جو ان کو ان کے پیرانِ طریقت سے ملے تھے، بغیر آپ کے مانگے آپ کے پاس بھیج دیئے۔ آپ نے لینے سے انکار کیا۔ وہ خرقہ اور تبرکات واپس کر دیئے۔ حضرت راجو قتالؒ نے دوبارہ بھیجے، اس مرتبہ آپ کے پاس سہروردیہ سلسلے کے ایک بزرگ جن کا نام حسام الدین ہے، تشریف رکھتے تھے۔ ان بزرگ نے آپ پر زور ڈالا کہ آپ وہ تبرکات قبول کرلیں۔ ان بزرگ کے اثر اور ترغیب کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ نے حضرت راجو قتال کے بھیجے ہوئے تبرکات قبول کئے۔
آپ شغل باطن اور ذکر خفی میں ہمہ تن مشغول رہتے تھے۔ عبادات و مجاہدات، و توکل و قناعت، تحمل اور برد باری میں اپنی مثال آپ تھے۔ ایک مرتبہ سلاطین وقت نے خانقاہ کے خرچ کیلئے کئی ہزار بیگھے زمین کا پروانہ لکھ کر آپ کی خدمت میں بھیجا۔ لیکن آپ نے قبول نہ کیا اور فرمایا کہ اس بلا سے ابھی نجات ملی ہے، دوبارہ گرفتار نہیں ہوتا۔ پس آپ نے ہمیشہ فقر و فاقہ میں زندگی بسر کی اور نہایت ہمت و استقلال کے ساتھ رہے۔ آپ کا وصال 847ھ میں ہوا اور آپؒ کو لکھنؤ کے نواح میں دفن کیا گیا۔ اس جگہ کا نام سارنگ پور ہے، جہاں آپ کا مزار آج بھی مرجع خلائق ہے۔