نجم الحسن عارف
مہمند ڈیم کا کنٹریکٹ ایوارڈ کئے جانے کے زیر عمل مراحل کو ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل نے پیپرا رولز کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے نیب سے مداخلت کی اپیل کر دی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی مہمند ڈیم کی تعمیر کے خلاف نیب سے رابطہ کر لیا ہے۔ تاہم نیب میں اب تک اس سلسلے میں کوئی ہلچل دیکھنے میں نہیں آئی۔ نیب میں موجود ذرائع کے مطابق ابھی تک کوئی ایسا انیشی ایٹو نیب کی طرف سے سامنے نہیں آیا ہے۔ حتی کہ اس بارے میں اب تک کوئی فائل ورک بھی شرو ع نہیں کیا گیا۔ تاہم باضابطہ شکایت موصول ہوجانے کے بعد اس معاملے کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ذرائع کے بقول اگر نیب نے اس معاملے کو باضابطہ دیکھنا شروع کیا تو زیادہ امکان ہے کہ اس کیس کو راولپنڈی ریجن کے سپرد کیا جائے کہ وزارت پانی و بجلی سے متعلقہ حکام اور بڈنگ سے متعلقہ واپڈا حکام بھی اسلام آباد میں باآسانی دستیاب ہیں۔ بصورت دیگر اسے نیب پشاور کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب واپڈا حکام کا کہنا تھا کہ یہ کیس نیب میں تب بنے، جب کوئی جواز بھی موجود ہو۔ پپپرا رولز کے علاوہ پاکستان انجینئرنگ کونسل کے قواعد کے مطابق تکنیکی ٹینڈر لئے گئے اور اسی کے مطابق فیصلے کئے گئے۔ اس لئے سنگل پارٹی بڈنگ کی باتیں جو بھی کر رہا ہے، غلط کر رہا ہے۔ واپڈا حکام کے مطابق یہ ایک کمپنی کو پکڑ کر کنٹریکٹ ایوارڈ کر نے کا معاملہ نہیں ہے۔ بلکہ نومبر 2017ء سے شروع کئے گئے بڈنگ میں ابتدائی طور پر 23 کمپنیوں نے بڈنگ کے کاغذات حاصل کئے۔ بعد میں جون 2018ء کو مقرر وقت تک دو کمپنیوں نے اپنے اپنے کنسورشیم کے تعاون سے ٹینڈر فائل کر دیئے۔ ضابطے کے مطابق پہلے مرحلے پر تکنیکی بڈز کو کھولا گیا۔ اس بڈز میں ڈسکون کمپنی اور اس کے ساتھ سی جی جی سی کی تکنیکی بڈز کو بہتر تسلیم کیا گیا۔ اس کمپنی میں تکنیکی بڈز میں قائدانہ کردار سی جی جی سی کے پاس تھا۔ جبکہ بڈنگ میں تکنیکی اعتبار سے ناکام ہونے والی کمپنی ایف ڈبلیو او کے پاس قائدانہ کردار تھا، لیکن اس کا پاور چائنا نامی کمپنی کے پاس قائدانہ کردار نہ تھا۔ ڈسکون کو اس سے پہلے پاکستان میں میرانی ڈیم سمیت چار پاور پروجیکٹ اور منگلا ریزنگ کے منصوبوں میں کام کا تجربہ بھی حاصل تھا۔ جبکہ سی جی جی سی کا نیلم جہلم پاور پراجیکٹ کے علاوہ داسو ڈیم کے حوالے سے کردار موجود ہے۔ ان ساری اور تکنیکی وجوہ کی بنیاد پر اسے بہتر انتخاب سمجھا گیا۔ ’’امت‘‘ کو واپڈا کے ایک اہم ذریعے نے بتایا کہ کسی بھی مرحلے پر کوئی غلط طریقہ اختیار نہیں کیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان میں ڈیم نہ بنانے دینے والی قوتیں ایک مرتبہ پھر متحرک ہوتی نظر آرہی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اب کی بار ان ڈیم مخالف قوتوں کا ہدف کالا باغ کے بجائے مہمند ڈیم بننے جا رہا ہے۔ اس ذریعے کے بقول جہاں تک یہ اعتراض ہے کہ سی جی جی سی پہلے کم بولی دیتی ہے اور بعد ازاں رقم میں اضافہ کرتی ہے، اس پس منظر میں نیلم جہلم پراجیکٹ کا نام لیا جارہا ہے۔ لیکن یہ اعتراض کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ نیلم جہلم پراجیکٹ میں 2005ء کے زلزلے کی وجہ سے انتہائی بڑی تبدیلیاں کرنی پڑی تھیں۔ پھر ڈالر کی قیمت اس منصوبے کے آغاز کے دنوں میں بہت مختلف تھی۔ جبکہ زلزلے کے بعد نئے سرے سے ساری اسٹیڈیز کرائی گئیں اور بہت ساری نئی چیزیں شامل کی گئیں تو اس وجہ سے لاگت میں اضافہ ہوا۔ یہ فطری اضافہ تھا۔ اس کا اعتراض کسی ایک کمپنی پر نہیں ڈالا جاسکتا۔ واپڈا کے ذرائع کے مطابق مہمند ڈیم کے سنگ بنیاد کی تقریب جنوری کے دوسرے ہفتے میں ہوگی۔ جنوری کے آغاز میں وزیر اعظم عمران خان کے دستیاب نہ ہو سکنے کی وجہ سے تقریب نہیں رکھی جا سکی۔ ان ذرائع نے بتایا کہ دریائوں میں سرما میں پانی کم ہونے کا موسم سنگ بنیاد کی تقریب کے لئے انتہائی موزوں ہوتا ہے۔ اس لئے کہ اس کے بعد جیو ٹیک بورنگ، ویدر اسٹیشن کا قیام، سسمک اسٹیشن کا قیام اور سائٹ ڈویلپنگ کے امور اس موسم میں ممکن ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ ڈیسکون کمپنی جو ایک وفاقی وزیر کی ملکیت سمجھی جاتی ہے، کو ابھی تک باضابطہ طور پر کنٹریکٹ ایوارڈ نہیں کیا گیا ہے۔ لیکن اس کی فنانشل بڈ کو کھولے جانے کا صاف مطلب ہے کہ کنٹریکٹ اسی کو ملے گا۔ ایک طویل عرصے بعد پاکستان میں قدری بڑے ڈیم کی تعمیر کا ڈول ڈالا گیا ہے۔ لیکن ملک کی دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں نے اس کی بڈنگ کے عمل پر انگلیاں اٹھائی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے نیب سے اس مقصد کے لئے رجوع کا فیصلہ کیا ہے۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سربراہ میاں شہباز شریف کی طرف سے پانی و بجلی کے وفاقی وزیر کو بلائے جانے پر وزیر پانی و بجلی فیصل واوڈا نے پورے تحکم کے ساتھ انکار کردیا تھا۔ لیکن نواز لیگ نے اس سے زیادہ اس ڈیم کی مخالفت یا اسے کسی وجہ سے تاخیر میں نہ ڈالنے کی حکمت عملی اپنائی ہے۔ اس کے مقابلے میں پی پی کافی سرگرمی کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ ایک ذریعے کا دعویٰ ہے کہ چونکہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت جیلوں میں ہونے کے باوجود تحمل کے ساتھ سیاست کر رہی ہے، اس لئے اس کا اس معاملے میں جارحانہ پن اختیار نہ کیا جانا بھی قوم کی پانی و بجلی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے لئے فکر مندی کا باعث ہے۔ واضح رہے کہ ڈیسکون نامی کمپنی کے حق میں کنٹریکٹ ایوارڈ ہونے کے حوالے سے امکان پر تو اعتراضات سامنے آئے ہیں، لیکن کسی بھی سیاسی جماعت یا کسی میڈیا ہائوس کی طرف سے پاکستان کرکٹ بورڈ کے جہانگیر ترین کے ساتھ کئے گئے ایسے ہی معاملے کو اس طرح قابل اعتراض نہیں سمجھا گیا ہے۔ حالانکہ پی ایس ایل کی چھٹی ٹیم کی لیز جہانگیر ترین کے بیٹے علی جہانگیر ترین کو بہت عجلت میں دی گئی۔ ان کے مقابلے میں ایک پارٹی کو محض کشمیر کا نام لینے کی وجہ سے آئوٹ کر دیا گیا۔ اور دوسری کمپنی نے بڈنگ میں وہ رقم پیش کرنے کا کہا، جو کم سے کم رقم سے بھی کم تھی۔ گویا ایک واردات کے تحت علی جہانگیر ترین کے بیٹے کے لئے راہ ہموار کی گئی۔