سادہ شادی بابرکت زندگی

مفتی فاروق صاحبؒ حضرت مولانا مسیح اللہ خاں صاحبؒ کے خلیفہ ہیں۔ آپ کے صاحبزادے کی شادی کس قدر سادگی کے ساتھ ہوئی، ان کی بہو کی زبانی اس شادی کی روداد سنئے۔ لکھتی ہیں:
’’یہ آج سے تقریباً چودہ سال پہلے کی بات ہے، میں مدرسۃ امینیہ کراچی میں درجہ عالمیہ میں پڑھتی تھی، ہماری پوری فیملی کا اصلاحی تعلق حضرت مولانا محمد فاروق صاحبؒ (جو کہ مسیح الامت حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب جلال آباد والے کے خلیفہ خاص ہیں) کے ساتھ تھا۔ میرے ابو جان (خدا تعالیٰ ان کا سایہ تادیر سلامت رکھے، آمین) بمقصد اصلاح صحبت اور زیارت شیخ کے لئے حضرت والا کے پاس خانقاہ سکھر میں حاضر ہوئے۔
ایک دن اچانک حضرت والا نے والد صاحب سے فرمایا کہ شاہ صاحب میں اپنے بیٹے (عبد الماجد جو کہ اس وقت جامعہ اسلامیہ امدادیہ، فیصل آباد میں درجہ سادسہ میں زیر تعلیم تھے) کیلئے آپ کی چھوٹی بیٹی کا رشتہ مانگتا ہوں۔
والد صاحب کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آگئے اور حضرت والا سے عرض کیا کہ حضرت! میں نے غلاف کعبہ پکڑ کر یہ دعا مانگی تھی کہ ’’خدایا! شیخ کے ساتھ میرے روحانی تعلق کو جسمانی تعلق میں تبدیل فرما۔‘‘
مختصراً یہ کہ والد صاحب نے فوراً اسی مجلس میں رشتہ قبول فرما لیا۔ یہ میری منگنی تھی۔ منگنی کے دو سال کے بعد نکاح ہوا۔ اس کی تفصیل بھی بڑی عجیب ہے۔
میرے والد صاحب اپنے کاروباری سلسلے میں بلجیم میں تھے، میری بڑی بہن شادی کے بعد ملایشیا میں تھیں اور والدہ نانی کی مزاج پرسی کیلئے ڈیرہ اسماعیل خان گئی ہوئی تھیں، رمضان شریف کے آخری عشر ے کی آمد تھی اور میرے تین بھائی عشرہ اخیرہ کا اعتکاف اپنے شیخ کی معیت میں کرنے کیلئے سکھر جانے کی تیاری کر رہے تھے، جس شب بھائیوں کی سکھر کے لئے روانگی تھی، میں کچن میں ان کی سحری کے لئے انتظام میں مصروف تھی، ابھی میں آٹا گوندھ کر فارغ ہی ہوئی تھی کہ میرے بھائی جان مجھے آواز دیتے ہوئے کچن میں داخل ہوئے، ان کے ہاتھ میں نکاح فارم تھے۔
بھائی جان نے جلدی سے کہا: حضرت والا کی ابو سے بات ہوگئی ہے، اعتکاف میں 27 ویں شب کو تمہارا نکاح ہوگا، جلدی سے یہاں دستخط کرو، میں ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ بھائی جان نے پھر کہا کہ مونا جلدی کرو، گاڑی کا ٹائم ہو رہا ہے، ابھی ہمیں اسٹیشن بھی پہنچنا ہے۔
میں نے ہاتھ دھوئے بغیر جلدی سے نکاح فارم پر دستخط کردیئے اور اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھتے ہوئے مسکراتے ہوئے سوچا کہ کتنی عجیب بات ہے ایسے وقت تو لڑکیوں کے ہاتھوں پر مہندی لگی ہوتی ہے اور میرے ہاتھوں پر آٹا لگا ہوا ہے۔
27 ویں شب میں اپنی خالہ کے ساتھ حضرت مولانا یوسف لدھیانوی شہیدؒ کا بیان سننے کیلئے گئی تو مجھے وہاں اپنے مدرسے کی طالبات ملیں، جب ان کو پتا چلا کہ آج میرا سکھر میں نکاح ہو رہا ہے تو وہ سب حیران رہ گئیں کہ تم کیسے یہاں بیٹھی ہو، نہ مہندی لگی، نہ دلہن بنی اور نکاح ہوگیا۔
نکاح کے دس ماہ بعد ایک دن میرے سسر صاحب نے فون پر میرے والد سے فرمایا کہ ہم 12 نومبر کو عمرے سے واپسی پر ڈھائی بجے کی فلائٹ سے اپنی بیٹی کو رخصت کروا کر لے جائیں گے۔ ابو جان نے عرض کیا ’’ٹھیک ہے حضرت جس طرح آپ نے فرمایا ہے، ایسے ہی ہوگا۔‘‘
12 نومبر کو دوپہر 12 بجے حضرت والا مع اپنے کچھ احباب، اہلیہ، بیٹی چھوٹی بہو اور دولہا صاحب کے تشریف لائے، چوں کہ اہل محلہ میں سے کسی کو مدعو ہی نہیں کیا گیا تھا، اس لئے کسی کو میری رخصتی کی خبر نہ ہو سکی، نہ کوئی زیادہ رشتہ دار تھے، صرف وہ خالہ اور تایا کی فلیمیاں اور میری مدرسے کی تین چار سہیلیاں آئی تھیں۔ انہوں نے ہی مجھے گھر پر تیار کردیا تھا۔ تقریباً ساڑھے بارہ بجے مہمانوں کو گھر پر کھانا کھلایا گیا۔ کھانے سے فارغ ہو کر 1 بجے سب نے باجماعت نماز پڑھی اور میں بھی اول وقت ہی ظہر کی نماز پڑھ کر فارغ ہو چکی تھی۔ سکھر کیلئے فلائٹ کا وقت ہو چکا تھا، اس لئے رخصتی جلدی ہوگئی۔
سکھر پہنچ کر سب نے عصر کی نماز بھی وقت پر ادا کی۔ نہ کسی کی کوئی نما قضا ہوئی اور نہ ہی کوئی رسومات ہوئیں۔ جتنی سادگی سے سب کام ہوئے، اس سے کہیں زیادہ سادگی سے ولیمہ ہوا۔ امی جان (ساس صاحبہ) نے گھر پر ہی ناشتے کیلئے پائے پکائے تھے اور میٹھے میں سوجی کا حلوہ، بس یہ صبح کا ناشتہ ہی ہمارا ولیمہ تھا‘‘(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment