سیدنا ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اقدسؐ نے فرمایا: ’’دراصل بندہ سجدے کی حالت میں اپنے رب سے بہت نزدیک ہوتا ہے، لہٰذا (سجدے میں) بہت دعا کرو‘‘ (مسلم)
رسول اکرمؐ عام طور پر زمین پر سجدہ کرتے تھے، اس لئے کہ مسجد نبوی میں فرش نہ تھا۔ صحابہؓ سخت گرمی میں نماز ادا کرتے اور زمین کی گرمی کی وجہ سے اگر وہ زمین پر پیشانی نہ رکھ سکتے تو سجدے کی جگہ پر کپڑا رکھ لیتے اور اس پر سجدہ کرتے۔ (مسلم)
رمضان المبارک کی اکیسویں رات تھی۔ بارش برسی اور مسجد کی چھت ٹپک پڑی اور آپؐ نے کیچڑ میں سجدہ کیا۔ آپؐ کی پیشانی اور ناک پر کیچڑ کا نشان تھا۔ (صحیح البخاری)
ایک دفعہ آپؐ نے بڑی چٹائی پر نماز ادا کی جو زیادہ عرصہ استعمال میں رہنے سے سیاہ ہوگئی تھی۔ (بخاری)
رسول اقدسؐ فرماتے ہیں: ’’جب آدم کا (مومن) بیٹا سجدے کی آیت پڑھتا ہے، پھر (پڑھنے اور سننے والا) سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتا ہوا ایک طرف ہوکر کہتا ہے: ہائے میری ہلاکت، تباہی اور بربادی! آدم کے بیٹے کو سجدے کا حکم دیا گیا۔ اس نے سجدہ کیا، لہٰذا اس کیلئے بہشت ہے اور مجھے سجدے کا حکم دیا گیا۔ میں نے نافرمانی کی، چنانچہ میرے لئے آگ ہے۔‘‘ (مسلم حدیث81)
عام طور پر رسول اقدسؐ کا سجدہ رکوع کے برابر لمبا ہوتا تھا۔ کبھی کبھی کسی عارضے کی بنا پر زیادہ لمبا کرتے۔ ایک دفعہ آپؐ ظہر یا عصر کی نماز میں سیدنا حسنؓ یا سیدنا حسینؓ کو اٹھائے ہوئے تشریف لائے۔ آپ نماز کی امامت کیلئے آگے بڑھے اور انہیں اپنے قدم مبارک کے قریب بٹھا لیا۔ پھر آپ نے نماز شروع کی اور لمبا سجدہ کیا۔ جب آپ نے نماز ختم کی تو لوگوں نے عرض کی: حضور! آپ نے اس نماز میں ایک سجدہ بہت لمبا کیا، یہاں تک کہ ہمیں خیال گزرا کہ کوئی واقعہ رونما ہوگیا ہے یا پھر وحی نازل ہو رہی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’ایسی کوئی بات نہیں تھی، بس میرا بیٹا میری کمر پر سوار ہوگیا تو میں نے یہ بات پسند نہ کی کہ سجدے سے جلدی سر اٹھا کر اسے پریشانی میں مبتلا کروں۔‘‘ (سنن النسائی، حدیث:1142)
٭٭٭٭٭