حضرت اسما بنت عمیس

حضرت اسماءؓ بنت عمیس کا تعلق قبیلہ خثعم سے تھا۔ والد کا نام عمیس بن سعد تھا، جبکہ والدہ کا نام ہند بن عوف تھا جو قبیلہ کنانہ سے تھیں۔ حضرت اسماءؓ بنت عمیس کا نکاح یکے بعد دیگرے تین ایسی جلیل القدر ہستیوں سے ہوا جو قصر اسلام کے عظیم الشان ستون تھیں، جو رہبر انسانیت سرور کائناتؐ کو حد درجہ محبوب تھیں اور جنہیں رحمت دو عالمؐ کھلے الفاظ میں جنت کی بشارت دے چکے تھے۔
حضرت اسماءؓ کا پہلا نکاح مہاجر حبشہ شہید موتہ حضرت جعفر طیارؓ بن ابی طالب سے ہوا، جو رسول اقدسؐ کے چچازاد بھائی تھے۔ ان کی شہادت کے بعد دوسرا نکاح حضرت ابو بکر صدیقؓ سے ہوا، ان کی وفات کے بعد تیسرا نکاح شیر خدا فاتح خیبر حضرت علیؓ سے ہوا۔
حضرت اسمائؓ بنت عمیس سابقون اولون میں شمار ہوتی ہیں۔ جب وہ اسلام لائیں تو سخت نامساعد حالات تھے اورابھی تقریباً تیس نفوس ہی اسلام کی سعادت سے مشرف ہوئے تھے۔ ان کے شوہر حضرت جعفرؓ نے بھی اسی زمانے میں اسلام قبول کیا تھا۔
جب کفار نے مسلمانوں کو بے حد ستانا شروع کر دیا تو رسول اکرمؐ نے صحابہ کرامؓ کو اجازت دے دی کہ جو کوئی چاہے اپنی جان و ایمان کی حفاظت کے لئے حبش چلا جائے۔ اس اجازت کے بعد بارہ مردوں اور 4 عورتوں کا قافلہ بندرگاہ شعیبہ سے جہاز میں سوار ہو کر حبش کو روانہ ہوگیا، ان کے پیچھے 83 مرد اور 18 عورتیں مکہ سے نکلے اور حبش کو روانہ ہوئے۔ ان میں حضرت جعفرؓ بن ابی طالب اور حضرت اسماءؓ بنت عمیس بھی شامل تھے۔ قریش نے سمندر تک ان کا تعاقب کیا، لیکن یہ کشتیوں میں بیٹھ کر روانہ ہو چکے تھے۔ حبش پہنچ کر یہ سب لوگ امن کی زندگی بسر کرنے لگے۔
قریش مکہ کو اتنی دور بیٹھے ہوئے بھی مسلمانوں کا یہ امن و چین گوارا نہ ہوا۔ انہوں نے نجاشی (حبشہ کے بادشاہ) کے پاس ایک وفد تحفے تحائف کے ساتھ روانہ کیا کہ وہ کسی طرح پناہ گزیں مسلمانوں کو اپنے ملک سے نکال دے۔ وفد قریش کے ارکان میں ابن ربیعہ اور عمروؓ ابن العاص بھی شامل تھے۔ جو بڑے زیرک اور سیاست دان تھے۔ انہوں نے حبش پہنچ کر نجاشی کے درباریوں اور پادریوں کو کچھ تحائف دے کر رام کر لیا اور انہوں نے وعدہ کیا کہ بادشاہ کے سامنے وہ وفد قریش کی حمایت کریں گے۔
اس کے بعد نجاشی کی خدمت میں حاضر ہو کر تحائف پیش کئے اور عرض کیا کہ ہمارے چند سادہ لوح آدمیوں نے ایک نیا مذہب گھڑا ہے جو ہمارے اور آپ کے دین کے سخت خلاف ہے۔ اس لئے ہم گزارش کرتے ہیں کہ ان لوگوں کو ہمارے حوالے کردیا جائے۔ جو ہمارے پاس سے بھاگ آئے ہیں اور اب آپ کے ملک کو خراب کرنے پر کمربستہ ہیں۔
بطارقہ اور پادریوں نے وفد قریش کے مطالبہ کی پرزور تائید کی۔ لیکن نجاشی ایک انصاف پسند اور رحم دل بادشاہ تھا۔ اس نے کہا کہ جب تک میں خود ان لوگوں کو بلا کر تحقیق احوال نہ کرلوں، انہیں تمہارے حوالے نہیں کر سکتا۔ چنانچہ اس نے سب مسلمان پناہ گزینوں کو اپنے دربار میں بلا بھیجا۔
دوسرے دن سب مسلمان نجاشی کے دربار میں حاضر ہوئے۔ ان سب نے متفقہ طور پر اپنا ترجمان زوج سیدہ اسمائؓ حضرت جعفرؓ بن ابی طالب کو مقرر کیا۔ نجاشی نے ان سے پوچھاکہ اے لوگو! وہ کون سا نیا مذہب ہے جس کے لئے تم نے اپنا آبائی مذہب چھوڑ دیا؟
حضرت جعفرؓ نے مسلمانوں کی طرف سے جواب دیا: ’’اے بادشاہ ہم سخت جہالت میں مبتلا تھے۔ بتوں کو پوجتے تھے، مردار کھاتے تھے، اپنی لڑکیاں زندہ زمین میں دفن کردیتے تھے۔ بدکاریاں کرتے تھے۔ رشتہ داروں اور ہمسایوں کو ستاتے تھے، انسانیت سے عاری تھے، کوئی قاعدہ و قانون نہ تھا۔ ایسی حالت میں خدا نے خود ہماری جماعت میں سے ایک شخص کو ہمارے پاس رسول بنا کر بھیجا، جس کے حسب و نسب، سچائی، شرافت، دیانت داری اور پاکبازی سے ہم خوب واقف تھے۔ اس نے ہم کو توحید کی دعوت دی، سچ بولنے، وعدہ پورا کرنے، امانت میں خیانت نہ کرنے، بت پرستی ترک کرنے، بدکاری اور فریب سے بچنے، ہمسایوں سے نیک سلوک کرنے، نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور زکوٰۃ دینے کی تعلیم دی۔ ہم اس کی تعلیم پر چلے، ایک خدا کی پرستش کی، حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھا۔ اس پر ہماری قوم ہم سے بگڑ بیٹھی۔ ہم کو طرح طرح کی اذیتیں دے کر پھر بت پرستی اور بدکاریوں میں مبتلا کرنا چاہا۔ ہم ان کے ظلم و ستم سے تنگ آکر آپ کی حکومت میں چلے آئے۔‘‘
نجاشی یہ تقریر سن کر بہت متاثر ہوا۔ اس نے حضرت جعفرؓ سے کہا ’’تمہارے نبی پر جو کتاب نازل ہوئی ہے، اس کا کوئی حصہ مجھے سنائو۔‘‘
حضرت جعفرؓ بڑے نکتہ رس تھے، انہیں معلوم تھا کہ نجاشی اہل کتاب ہے اور دین عیسوی کا پیرو ہے۔ انہوں نے سورۃ مریم کی چند آیات تلاوت کیں، نجاشی ہکا بکا رہ گیا اور بے ساختہ پکار اٹھا۔
’’خدا کی قسم تمہارے نبی کی کتاب اور انجیل مقدس ایک ہی نور کی کرنیں ہیں۔‘‘ پھر قریش کے وفد سے مخاطب ہو کر کہا: ’’بخدا! میں ان لوگوں کو کبھی اپنے ملک سے نہ نکالوں گا۔‘‘ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment