حضرت ابو بکر واسطیؒ اپنے دور کے معروف مشائخ میں ہوئے ہیں۔ حقائق ومعارف میں دوسرا کوئی آپ کا ہمسر نہ تھا۔ حضرت جنید بغدادیؒ کے معتقدین کی پیشوائی کا فخر بھی آپؒ کو حاصل تھا۔ کہتے ہیں کہ آپ کا اصلی وطن فرغانہ تھا، لیکن شہر واسط میں قیام پذیر ہوگئے اور اپنی کسر نفسی کی وجہ سے وہاں کے عوام میں بہت مقبول ہوئے اور جس قدر مجاہدات اور ریاضتیں آپ نے کی ہیں، وہ کسی کو میسر نہیں آسکیں۔
آپ کو متعدد شہروں سے شہر بدر کیا گیا، جس شہر میں داخل ہوتے، جلد ہی وہاں سے نکال دیا جاتا تھا، لیکن شہر بادرد میں آپ بہت کم مقیم رہ سکے اور وہاں کے باشندوں کو آپ سے کچھ اعتقاد بھی قائم ہوگیا، مگر آپ کے ارشادات جو فہم سے بالاتر ہوتے تھے، ان کو طرح طرح کے معنی پہنائے گئے، جس کی وجہ سے آپ کو وہ جگہ بھی چھوڑنی پڑی اور آخر میں آپ مرو میں مقیم ہوگئے اور تاحیات وہی قیام کیا اور وہاں کے لوگوں نے آپ کے ارشادات کو سمجھ کر بہت فیض حاصل کئے۔
آپ نے اپنے معتقدین سے فرمایا کہ ایک دن میں کسی کام سے باغیچہ میں پہنچا تو چھوٹے پرندے نے میرے سر پر اڑنا شروع کر دیا اور میں نے اس کو پکڑ کر جب اپنے ہاتھ میں دبا لیا تو ایک اور چھوٹا سا پرندہ آیا اور میرے سر پر چیخنے لگا، اس وقت مجھے یہ خیال آیا کہ میرے ہاتھ میں جو پرندہ ہے وہ یا تو اس آنے والے پرندہ کا بچہ ہے اور یا اس کی مادہ۔ چنانچہ میں نے ازراہ ترحم اس پرندے کو چھوڑ دیا، لیکن اس کے بعد سے جو میں بیمار ہوا تو مسلسل ایک سال تک بیمار پڑا رہا، پھر ایک رات خواب میں حضور اکرمؐ کی زیارت سے مشرف ہو کر عرض کیا کہ اپنی بیماری و لاغری کی وجہ سے ایک سال سے بیٹھ کر نماز ا دا کرتا ہوں، لہٰذا آپ میرے لئے دعا فرمائیں، لیکن حضورؐ نے فرمایا یہ حالت اس پرندے کی شکایت کی وجہ سے ہوئی ہے، جو اس نے کی ہے، اس لئے مجھ سے کسی قسم کی معذرت بے نتیجہ ہے۔
پھر ایک دن اسی بیماری کے دوران جب میں تکیہ کے سہارے بیٹھا تھا تو ایک بہت بڑا سانپ بلی کے بچے کو منہ میں دبائے ہوئے نمودار ہوا اور میں نے اس کو ایسا ڈنڈا مارا کہ وہ بچہ اس کے منہ سے نکل گیا اور ایک بلی آکر اس کو اپنے ساتھ لے گئی، جس کے جاتے ہی میں فوراً صحت یاب ہو گیا اور کھڑے ہو کر نماز ادا کرنے لگا۔ پھر اسی شب حضورؐ کو خواب میں دیکھ کر عرض کیا: حضور! آج میں بالکل ٹھیک ہوگیا ہوں تو آپؐ نے فرمایا کہ ایک بلی نے تیرا شکر ادا کیا ہے۔
ایک دن آپ اپنے معتقدین کے ہمراہ اپنے مکان میں تشریف فرما تھے کہ مکان کے ایک سوارخ میں سے دھوپ کی ایک کرن اندر آگئی، جس میں لاکھوں ذرات تھرتھراتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔ آپ نے لوگوں سے پوچھا کہ تمہیں ان ذرات کے تھرتھرانے سے کوئی پریشانی تو نہیں ہوتی؟ لوگوں نے عرض کیا کہ نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ موحد کی شان ہی یہی ہے کہ اسی طرح اس کو دونوں عالم بھی لرزاں نظر آتے لگیں تو اس کے قلب پر خوف وہراس نہ ہو، پھر فرمایا کہ خدا کو یاد کرنے والوں کو زیادہ غفلت ہوتی ہے، بہ نسبت ان کے جو خدا کو یاد نہیں کرتے، کیوں کہ اہل حق کا ذکر حق کی کمی سے روگردانی کرنا حق کو فراموش کرنے والوں سے زیادہ غفلت کا باعث ہے، کیوں کہ ان کو یہ احساس ہی باقی نہیں رہتا کہ وہ حق کے حضور میں حاضر ہیں، لیکن ذکر کرنے والوں کو بے حضوری کے عالم میں یہ تصور کر لینا کہ وہ ذکر حق میں حاضر نہیں، زیادہ غفلت کا نتیجہ ہے۔ اس لئے طالبان حقیقت کی ہلاکت ان کے باطل تصورات میں مضمر ہوتی ہے اور جب ان تصورات میں اضافہ ہو جاتا ہے تو دینی کام گھٹ جاتا ہے اور دنیاوی کام بڑھ جاتا ہے، کیوں کہ تصورات کی حقیقت عقل پر مبنی ہوتی ہے اور عقل کا حصول ہمت ہی سے وابستہ ہے اور بندہ خواہ حاضر ہو یا غیر حاضر، لیکن ذکر کی حقیقت یہ ہے کہ جب غیر حاضر اپنے وجود سے غیر حاضر ہو اور حق کے ساتھ حاضر رہے تو گویا وہ ذکر میں نہیں، بلکہ مشاہدے کے عالم میں ہے اور جب اپنے وجود سے حاضر رہ کر حق سے غیر حاضر رہے تو ذاکر ہونے کے باوجود اس کے ذکر کی کوئی اصلیت نہیں ہوتی اور اسی کو غفلت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
ایک دن شفا خانے میں آپ نے کسی دیوانے کو اس عالم میں دیکھا کہ وہ شور وغوغا کررہا ہے تو آپ نے فرمایا کہ اپنی وزنی بیڑیوں کے باوجود بھی تم شور مچا رہے ہو اور خاموشی اختیار نہیں کرتے۔ اس نے جواب دیا کہ بیڑیاں تو میرے پائوں میں پڑی ہوئی ہیں نہ کہ میرے قلب میں۔
آپ کا ایک عقیدت مند جلدی جلدی غسل کرکے جمعہ کی نماز کیلئے مسجد کی طرف روانہ ہوا تو راستے میں ایسی بری طرح سے گر گیا کہ تمام چہرہ چھل گیا، جس کی وجہ سے واپس آکر اس نے دوبارہ غسل کیا۔ آپ نے فرمایا کہ اس اذیت سے تجھ کو اس لئے خوش ہونا چاہئے کہ تجھے یہ تکلیف محض اس لئے پہنچائی گئی ہے کہ وہ تجھ سے خوش رہے اور اگر وہ تیرے ساتھ ایسا سلوک نہ کرے تو تجھے سمجھ لینا چاہئے کہ اس کی توبہ تیری جانب نہیں ہے۔
ابو سعید ابوالخیر نے جب آپ کی زیارت کے لئے مرو جانے کا قصد کیا تو مریدوں نے فرمایا کہ استنجا کیلئے ڈھیلے ساتھ رکھ لینا اور جب خدام نے پوچھا کہ کیا وہاں ڈھیلے نہیں ملتے یا اور کوئی راز ہے؟ فرمایا کہ وہ شیخ ابوبکر کی قیام گاہ ہے جو اپنے دور کے ایسے موحدین میں سے ہیں جن کی وجہ سے مرو کی خاک زندہ ہے اور زندہ خاک کو ناپاک نہیں کرنا چاہئے۔
٭٭٭٭٭