محمد قاسم
فاٹا کو مرحلہ وار خیبرپختون کے دیگر اضلاع کے برابر لانے کیلئے ابتدائی اصلاحات کی منظوری دے دی گئی ہے۔ اس سلسلے میں نہ صرف انضمام کیلئے حائل تمام رکاوٹیں دور کرنے کا حکم دیا گیا ہے، بلکہ خیبر پختون میں ایک سال کے اندر عدالتوں کا قیام، صحت کی تمام سہولیات فراہم کرنے کیلئے چھ ماہ اور تین ماہ میں 2200 پولیس اہلکاروں کی بھرتی کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم کی جانب سے مذکورہ ہداہات پر عملدرآمد نہ کرنے کی صورت میں سخت کارروائی کا عندیہ بھی دیا گیا ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق 31 دسمبر 2018ء کو وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت ایک اہم اجلاس ہوا جس میں فاٹا کے خیبر پختون میں انضمام کے حوالے سے اہم امور زیر بحث آئے۔ اس حوالے سے ’’امت‘‘ کو دستاویز نمبر 10/M/N/SPM 2018/Dated 1-1-2019 بھی حاصل ہوئی ہے، جس کے مطابق قبائلی علاقوں میں عدالتوں کے قیام کی ذمہ داری خیبرپختون کے وزیر تعلیم، چیف سیکریٹری اور سیکریٹری خزانہ کو دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ ایک سال کی مدت میں تمام کورٹس کا قیام عمل میں لے آیا جائے۔ اسی طرح تنازعات کے حل کیلئے چیف منسٹر، چیف سیکریٹری اور سیکریٹری داخلہ کو دو مہینے کا وقت دیا گیا ہے۔ صحت کے معاملات وزیر صحت اور سیکریٹری صحت کے حوالے کئے گئے ہیں اور انہیں ایک ماہ کا وقت دیا گیا ہے۔ جبکہ وزیر صحت اور سیکریٹری صحت کو فوری طور پر ایک مہینے کے اندر ادویات کی فراہمی یقینی بنانے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ فاٹا کے سات قبائلی اضلاع کے سات ہیڈ کوارٹرز اسپتالوں کو فوری فعال بنانے کیلئے تین مہینے دیئے گئے ہیں، جبکہ ان کی معاونت تمام ڈی ایچ اوز کو کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ اسی طرح محکمہ صحت میں بھرتیوں کیلئے وزیر صحت اور سیکریٹری صحت کو تین ماہ دیئے گئے ہیں اور تمام سہولیات فراہم کرنے کیلئے چھ ماہ کا وقت دیا گیا ہے۔ صحت انصاف کارڈز کیلئے ایک ماہ کا وقت متعین کیا گیا ہے۔ دستاویز کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت اجلاس میں خود مختار مانٹیرنگ یونٹ کو فوری طور پر تمام قبائلی علاقوں تک توسیع دینے کیلئے وزیر تعلیم ضیاء اللہ بنگش اور سیکریٹری تعلیم ڈاکٹر اجمل کو ایک ماہ، تمام ہائی اسکولوں میں سہولیات فراہم کرنے کیلئے تین ماہ، اساتذہ اور اسٹاف کی کمی کو دور کرنے کیلئے تین ماہ، جبکہ نئی بھرتیوں کیلئے چھ مہینے کا وقت دیا گیا ہے۔ امن و امان کی صورتحال کے لئے لیویز کی 2200 پوسٹوں پر بھرتی کیلئے سیکریٹری سیفران قبائلی امور کو تین ماہ دیئے گئے ہیں۔ تمام بھرتیوں کیلئے پولیس کے قواعد لاگو ہوں گے۔ لیویز کو پولیس کی تربیت کیلئے چھ ماہ دیئے گئے ہیں۔ خیبرپختون کے آئی جی کو سیکریٹری داخلہ اور قبائلی امور کے ساتھ مل کر ایک سال کے اندر تھانوں کا قیام عمل میں لانے کا پابند کیا گیا ہے۔ ڈی ایس پیز، سب انسپکٹرز، انسپکٹرز اور دیگر افسران کی تعیناتی کیلئے ایک سال کا وقت دیا گیا ہے۔ اسی طرح 2019-20ء کے بجٹ میں قبائلی اضلاع میں ترقیاتی اسکیموں کیلئے صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا اور سیکریٹری خزانہ کو پانچ مہینے کا وقت دیاگیا ہے۔ پنجاب، خیبرپختون اور وفاقی حکومت کی جانب سے فاٹا کی ترقی کیلئے تین فیصد شیئرز کی فراہمی پر عملدرآمد یقینی بنانے کیلئے صوبائی وزیر اور سیکریٹری خزانہ کو چھ ماہ دیئے گئے ہیں۔ خزانہ کے امور سے متعلق اضلاع کے فنڈز جاری کرنے کیلئے تین ماہ کا وقت دیا گیا ہے۔ جبکہ فاٹا کیلئے آئندہ این ایف سی ایوارڈ، بجٹ، ترقیاتی بجٹ، سبسڈی اور دیگر منصوبہ بندی کیلئے ایک سال کے اندر عملدرآمد کا کہا گیا ہے۔ قبائلی اضلاع میں ضلعی اکائونٹس کھولنے کیلئے سیکریٹری خزانہ کو ایک ماہ کا وقت دیا گیا ہے۔ اسی طرح تمام صوبائی اکائونٹس کو قبائلی اضلاع میں فعال بنانے کیلئے فنانس ڈویژن کو دو مہینے دیئے گئے ہیں۔ فاٹا میں ترقیاتی منصوبوں کیلئے ایڈیشنل چیف سیکریٹری پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کو دو ماہ کا وقت دیا گیا ہے۔ جبکہ نئی اسکیموں کی نشاندہی کیلئے ایک ماہ دیا ہے۔ صوبائی حکومت کے قوانین نافذ کرنے کیلئے ایڈیشنل چیف سیکریٹری فاٹا کے عہدے کو ختم کرنے اور ان کے تمام معاملات سیکریٹری ہوم اور قبائلی امور کو ٹرانسفر کرنے کیلئے چیف سیکریٹری کو ایک ماہ کا وقت دیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ اور وزرا کو فوری طور پر قبائلی علاقوں کے دورے کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ بلدیاتی انتخابات، صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے ساتھ کرانے کیلئے صوبائی وزیر بلدیات شہرام خان کو چھ ماہ کا وقت دیا گیا ہے۔ اسی طرح سیکریٹری لوکل گورنمنٹ اور سیکریٹری فنانس کو بلدیاتی محکموں کو فعال بنانے کی ہدایت دی گئی ہے۔ امت کو ملنے والی دستاویزات کے مطابق وزیراعظم نے ہدایات جاری کی ہیں کہ فوری طور پر ان تمام اقدامات پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے اور ایک ہفتے کے اندر وزیراعلیٰ، وزیراعظم کو اس حوالے سے رپورٹ پیش کریں گے۔ گورنر امن و امان، لوکل گورنمنٹ اور کمیونی کیشن اسٹرٹیجی کی نگرانی کریں گے، جبکہ وزیراعلیٰ ان تمام امور پر عملدرآمد کے ذمہ دار ہوں گے۔ اجلاس میں وزیراعظم کے علاوہ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر، صوبائی گورنر شاہ فرمان، وزیراعظم کے مشیر ارباب شہزاد، وزیراعلیٰ خیبرپختون محمود خان، وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا، وزیراعظم کے پرسنل سیکریٹری محمد اعظم خان، سیکرٹری سیفران محمد اسلم، ایڈیشنل چیف سیکریٹری خیبرپختون کیپٹن ریٹائرڈ سکندر قیوم، ایڈیشنل چیف سیکریٹری پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ شہزاد بنگش، الیون کور کے کمانڈر بریگیڈیئر محمد عامر نجم، ایڈووکیٹ جنرل آف خیبرپختون عبداللطیف یوسف زئی نے بھی شرکت کی۔ ذرائع نے بتایا کہ پہلی بار تحریری طور پر قبائلی اضلاع کو دوسرے اضلاع کے برابر لانے کیلئے ہدایات جاری کی گئی ہیں اور یہ ہدایات وزیراعظم عمران خان نے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر جاری کی ہیں۔ اس سے خیبرپختون کے قبائلی اضلاع کے انضمام میں حائل رکاوٹیں آہستہ آہستہ دور ہو رہی ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سیکورٹی اداروں نے قبائلی اضلاع میں امن قائم کرنے کے بعد بتدریج پولیس اور لیویز کے حوالے کرنے کیلئے حکومت سے اقدامات کرنے کا کہا ہے۔ پولیس کی تعیناتی سے سیکورٹی فورسز پر قیام امن کے حوالے سے دبائو کم ہو جائے گا اور پاکستان کے سیکورٹی ادارے یکسو ہو کر مشرقی بارڈر کی طرف توجہ دیں گے۔ فوج نے قبائلی علاقوں میں خاردار تاروں کی تنصیب بھی تقریباً مکمل کرلی ہے۔ جن مقامات سے شدت پسندوں کے پاکستان میں داخل ہونے کا خدشہ تھا، وہ تمام علاقے بند کرنے کے علاوہ وہاں سیکورٹی چیک پوسٹیں بھی قائم کر دی گئی ہیں۔ اس لئے پولیس کو قبائلی اضلاع میں امن وامان کے قیام میں آسانی رہے گی۔ ٭
٭٭٭٭٭