سرد موسم نے کراچی میں لحاف گدے کا بزنس گرم کردیا

اقبال اعوان
سرد موسم نے کراچی میں لحاف، گدے کا بزنس گرم کر دیا۔ تین، چار برس کی نسبت اس مرتبہ زیادہ سردی نے گوداموں میں رکھے مال کو بھی کار آمد بنا دیا ہے۔ ادھر دکان داروں نے موقع دیکھ کر قیمتیں 50 فیصد سے زائد بڑھا دیں۔ لنڈے کے کمبل اور پرانی رضائیاں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں زیادہ فروخت ہورہی ہیں۔ کراچی سے تیار رضائی اور گدے دوسرے شہروں میں بھی بھیجے جانے لگے ہیں۔ کاریگروں کا کہنا ہے کہ اس بار شادی بیاہ کے سیزن میں لوگ جہیز میں زیادہ تر فینسی رضائیاں اور گدے دے رہے ہیں۔ جس کے باعث ڈوبتے پیشے نے جان پکڑ لی ہے۔ کاریگر دن رات کام کر کے سیزن کا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور دعا کر رہے ہیں کہ سردی میں مزید اضافہ ہو جائے۔
کراچی میں گزشتہ کئی سال سے سرد موسم کا دورانیہ انتہائی کم ہوتا تھا۔ جبکہ سردی کی شدت بھی کم ہوئی تھی۔ سمندری ہوائیں، کوئٹہ یا سائیبریا سے آنے والی سرد ہواؤں کا زور کم کر دیتی تھیں۔ بمشکل ایک دو ماہ موسم کچھ سرد ہوتا تھا۔ اس کے سبب جہاں کراچی میں گرم کپڑوں کا کاروبار ٹھنڈا رہتا تھا، وہیں لنڈے کے کمبل اور رضائیاں بھی کم فروخت ہوتی تھیں۔ یہ مال فروری تک گوداموں میں رکھ دیا جاتا تھا کہ شاید اگلے برس سیل ہو سکے۔ کراچی میں نئے لحاف اور گدے بنانے کا کام بھی ماند پڑگیا تھا۔ لوگ ایک دو ماہ کیلئے نہ رضائی بنواتے تھے اور نہ پرانی رضائی ٹھیک کراتے تھے کہ اس خرچے سے بہتر ہے کہ لنڈے کے کمبل یا رضائی لے لی جائے۔ جبکہ لوگ جہیز میں بھی زیادہ تر نئے کمبل دے رہے تھے۔ گولڈن اور سرخ خوبصورت بنارسی کپڑے کی بنی ہوئی رضائی کی جگہ غیر ملکی کمبل جہیز میں دے کر کام چلایا جا رہا تھا۔ کراچی میں لحاف گدوں کی مرکزی مارکیٹ تو لی مارکیٹ میں تانگہ اسٹینڈ کے قریب واقع تھی، جو تجاوزات آپریشن میں مسمار کردی گئی اور دکانیں اطراف میں منتقل کر دی گئیں۔
دوران سروے ’’امت‘‘ کو 50 سال سے رضائی کا کام کرنے والے دکاندار صدیق نے بتایا کہ وہ قیام پاکستان کے بعد سے دکان چلا رہا ہے۔ اس کا یہ خاندانی پیشہ ہے۔ پندرہ بیس سال قبل خالص روئی کی رضائی بنتی تھی۔ اب تو وہ روئی شاید بیرون ملک چلی جاتی ہے۔ جبکہ خراب کوالٹی کی روئی اور کراچی کے صنعتی زون میں واقع ٹیکسٹائل ملز میں کپڑے کے دھاگوں سے جو کچرا نکلتا ہے، اب لحاف میں اس کو ڈالا جاتا ہے۔ اسی طرح بیرون ملک سے لائے جانے والے بچوں کے پرانے کھلونوں کے اندر جو فائبر یا روئی نما سفید ریشہ ہوتا ہے اس کو بطور روئی استعمال کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’حالیہ سرد موسم نے لوگوں کو رضائیاں، گدے لینے پر مجبور کردیا ہے۔ گوداموں اور دکانوں میں گذشتہ برسوں میں بچ جانے والا رضائی اور گدوں کا اسٹاک بھی فروخت ہوچکا ہے‘‘۔ ابوبکر نامی دکاندار کا کہنا تھا کہ خدا نے ان کی سن لی اور کراچی میں موسم سرد ہوتے ہی کاروبار چمک اٹھا۔ چونکہ اس وقت شادی بیاہ کا سیزن ہے، لہذا لوگ جہیز میں بھی رضائی گدے دے رہے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ لنڈے کے کمبل اور رضائیاں زیادہ فروخت ہو رہی ہیں اور لوگ پرانی رضائی، گدے لے کر ان میں روئی بھرانے بھی آرہے ہیں۔ اس سال جس طرح کا رش نظر آتا ہے، اس سمیت دیگر دکانداروں بہت اچھا لگ رہا ہے۔ محمد صالحین نامی کاریگر کا کہنا تھا کہ ’’میں 45 سال سے یہ کام کر رہا ہوں۔ کراچی میں عام طور پر اکتوبر کے آخر میں کام بڑھتا تھا اور نمائشی طور پر رضائی گدے، کم تعداد میں بنا کر شہر بھر میں رکھے جاتے تھے۔ لیکن اب کام بڑھ گیا ہے‘‘۔ جعفر کچھی نامی دکاندار کا کہنا تھا کہ وہ 50 سال سے یہ کام کر رہا ہے۔ اب کراچی کی تیار کردہ رضائیاں اور گدے حہاں دوسرے شہروں میں جاتے ہیں وہاں ایران، دبئی، افغانستان اور دیگر ممالک میں بھی جاتے ہں۔ ان کا کہنا تھا کہ لنڈے کا مال زیادہ آنے سے مقامی تیار کردہ رضائی گدے کا کاروبار متاثر ہوا تھا۔ تاہم اس بار سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔ لوگ ماضی کی طرح رضائی گدے لے کر جارہے ہیں اور گھروں میں رکھی پرانی رضائی اور گدے مرمت بھی کرارہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 40 سال قبل دو تین سو روپے میں رضائی اور گدا مل جاتا تھا۔ اب تیار رضائی کی قیمت ہزار سے پندرہ سور روپے تک جا پہنچی ہے۔ اب پہلے کی طرح دن رات کاریگر کام کررہے ہیں کہ کراچی میں سردی کا سیزن فروری کے آخر تک چل سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ روئی دھنکنے کی مشینوں پر کام کرنے والے ملازم ٹی بی اور سانس کے امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ وہ منہ، ناک پر رومال باندھ لیتے ہیں اور بعض لوگ ٹوٹکے کے طور پر گڑ کا ٹکڑا منہ میں رکھتے ہیں۔ تاہم سانس لینے سے روئی کے ذرات پھیپھڑوں کے اندر چلے ہی جاتے ہیں۔ کاریگر فرقان کا کہنا تھا کہ دس سال قبل تک کراچی میں رضائی اور گدے کی ایک ہزار سے زیادہ دکانیں تھیں، اب دو تین سو رہ گئی ہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment