شریعت اسلامیہ نے نہ صرف یہ کہ ایک بالغ شخص کو ذاتی اور شخصی طور پراس بات کی تاکید کی ہے کہ وہ خود کو شادی کے بندھن میں باندھ لے، بلکہ معاشرے کے دوسرے افراد کو بھی اس بات کی تلقین کی ہے کہ وہ غیر شادی شدہ افراد کی شادی کی فکر کریں، قرآنِ مجید میں ارشاد ربانی ہے:
(ترجمہ) ’’تم میں سے جو مرد عورت بے نکاح کے ہوں ان کا نکاح کر دو اور اپنے نیک بخت (مومن) غلام کا بھی، اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو خدا تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا، خدا تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے‘‘ (النور: 32)
آیت میں خطاب یا تو اولیاء اور سرپرستوں سے ہے کہ وہ اپنی زیر ولایت لڑکیوں اور غیر شادی شدہ خواتین کی شادی کی تدبیر وسعی کریں، ان کیلئے رشتوں کی تلاش وجستجو میں لگے رہیں اور مناسب اور شرعی طور پر قابل قبول رشتوں کی موجودگی یا فراہمی کے باوجود ان کی شادی میں تاخیر ہرگز نہ کریں، نبی اکرمؐ کی اس حدیث سے اس ذمہ داری کی نزاکت و اہمیت کا اندازہ کرنا چاہئے، آپؐ کا ارشاد ہے:
’’تورات میں لکھا ہے کہ جس شخص کی بیٹی 12 سال کی عمر (یعنی بلوغت) کو پہنچ گئی اور اس نے اس کا نکاح نہیں کیا اور وہ گناہ کی مرتکب ہوئی تو گناہ اس کے والد پر ہو گا۔‘‘ (شعب الایمان، مشکوٰۃ)
صحابہ کرامؓ اور سلف کے یہاں اس بارے میں فکر و سعی کی بہت سی مثالیں مل سکتی ہیں، مثال کے طور پر صحیح بخاری کی یہ ایک روایت ملاحظہ فرمائیے۔ سیدنا ابن عمرؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں:
’’عمرؓ کی صاحبزادی حفصہؓ جب بیوہ ہو گئیں، ان کے شوہر خنیس بن حذافہ سہمیؓ تھے، جو اصحاب رسول میں سے تھے، ان کی وفات مدینہ میں ہوئی، تو عمرؓ نے بتایا کہ میں عثمانؓ کے پاس آیا اور ان کو حفصہؓ سے نکاح کی پیشکش کی، انہوں نے کہا کہ میں اس بارے میں غور کروں گا، پھر کچھ دنوں کے بعد ان سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ میری رائے ابھی شادی نہ کرنے کی ہوئی ہے، پھر میں ابوبکرؓ سے ملا اور ان سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں حفصہؓ سے آپ کا نکاح کر دوں؟ ابوبکرؓ خاموش رہے اور انہوں نے کچھ بھی جواب نہ دیا (جس سے) مجھے ان سے عثمانؓ کے مقابلے میں زیادہ رنج پہنچا، پھر کچھ ہی دنوں بعد رسول اقدسؐ کا پیغام حفصہؓ کیلئے آیا اور میں نے اس کا نکاح آپؐ سے کر دیا، اب جب حضرت ابوبکرؓ سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ اس دن میں نے آپ کی بات کا کوئی جواب نہ دیا تو آپ کو رنج ہوا ہو گا، لیکن میں نے نبی اکرمؐ کو حفصہ کا ذکر کرتے سنا تھا، میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ آپؐ کے راز کو فاش کر دوں، اگر آپؐ نے چھوڑ دیا ہوتا تو یقیناً میں نکاح کر لیتا۔‘‘ (بخاری)
مشہور تابعی حضرت احنف بن قیسؒ فرماتے تھے:
’’اپنے گھر کے کسی کونے میں کسی اژدہے کا وجود مجھے اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ غیر شادی شدہ عورت کے لئے اس کے لائق مرد کی طرف سے پیغام آئے اور میں اسے رد کر دوں۔‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ)
یا پھر آیتِ کریمہ میں خطاب پوری امت سے ہے اور مقصود اس بات کی تاکید ہے کہ معاشرہ کے غیر شادی شدہ افراد کو شادی کی ترغیب دی جائے، نکاح کے عمل کو آسان، سادہ اور سہل بنانے کی فکر و تدبیر کی جائے، نکاح کی راہ کی رکاوٹوں کو دور کیا جائے اور نکاح کے خواہش مند اور حاجت مند افراد کا نکاح کے اسباب اور ضروری اخراجات و وسائل کی فراہمی وغیرہ میں حتی الامکان تعاون و مدد کی جائے، چنانچہ غیر شادی شدہ اور مجرد افراد کو شادی کی ترغیب اور پھر ان کا مالی تعاون وغیرہ کرنا عہد نبویؐ اور بعد کے زمانوں میں عام اور مشہور و معروف بات تھی۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭