معارف و مسائل
(آیت) سَابِقُوْا … یعنی مسابقت کرو اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کا عرض آسمان و زمین کے عرض کے برابر ہے۔
مسابقت کرنے سے یہ مراد بھی ہو سکتی ہے کہ عمر اور صحت و قدرت کا کچھ بھروسہ نہیں، نیک اعمال میں سستی اور ٹال مٹول نہ کرو، ایسا نہ ہو کہ پھر کوئی بیماری یا عذر آ کر تمہیں اس کام کے قابل نہ چھوڑے، یا موت ہی آ جائے تو حاصل مسابقت کا یہ ہے کہ عجز و ضعف اور موت سے مسابقت کرو کہ ان کے آنے سے پہلے پہلے ایسے اعمال کا ذخیرہ کرلو، جو جنت تک پہنچانے کا ذریعہ بن سکیں۔
اور مسابقت کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ نیک اعمال میں دوسروں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو، جیسا کہ حضرت علیؓ نے اپنی نصائح میں فرمایا کہ ’’تم مسجد میں سب سے پہلے جانے والے اور سب سے آخر میں نکلنے والے بنو۔‘‘ حضرت ابن مسعودؓ نے فرمایا کہ جہاد کی صفوف میں سے پہلی صف میں رہنے کے لئے بڑھو۔ حضرت انسؓ نے فرمایا کہ جماعت نماز میں پہلی تکبیر میں حاضر رہنے کی کوشش کرو۔ (روح)
جنت کی تعریف میں فرمایا کہ اس کا عرض آسمان و زمین کے برابر ہوگا، سورۃ آل عمران میں بھی اسی مضمون کی آیت پہلے آ چکی ہے، اس میں لفظ سٰموٰت جمع کے ساتھ آیا ہے، جس سے معلوم ہوا کہ آسمان سے مراد ساتوں آسمان ہیں اور معنی یہ ہیں کہ ساتوں آسمانوں اور زمین کی وسعت کو ایک جگہ جمع کرلو تو وہ جنت کا عرض ہو، یعنی چوڑائی اور یہ ظاہر ہے کہ طول ہر چیز کا اس کے عرض سے زائد ہوتا ہے، اس سے ثابت ہوا کہ جنت کی وسعت ساتوں آسمانوں اور زمین کی وسعت سے بڑھی ہوئی ہے اور لفظ عرض کبھی مطلق وسعت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، اس میں طویل کا مقابلہ مقصود نہیں ہوتا، دونوں صورتوں میں جنت کی عظیم الشان وسعت کا بیان ہو گیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭