سرفروش

عباس ثاقب
صوبیدار شکتی ببر گاڑی سے اترا تو اندازہ ہوا وہ خاصا دراز قامت اور ہٹا کٹا شخص ہے۔ عمر بڑھنے سے اس کا تن و توش ڈھلک ضرور گیا تھا، لیکن اس میں اب بھی خاصا دم خم باقی تھا۔ اس نے مودبانہ انداز میں مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’میری خوش قسمتی ہے کنور جی، کہ آپ میرے غریب خانے پر تشریف لائے ہیں۔ میں دل کی گہرائیوں سے آپ کا سواگت کرتا ہوں‘‘۔
میں نے بھاری، لیکن مربیانہ لہجے میں کہا۔ ’’کیا حال ہے صوبیدار شکتی ببر تیرا؟ تُو ٹھیک تو ہے ناں؟‘‘۔
اس نے بدستور عاجزی سے کہا۔ ’’واہگرو کی کرپا سے میں بالکل ٹھیک ہوں کنور جی۔ مہربانی کر کے میرے غریب خانے کو عزت بخشو‘‘۔
میں نے اپنے لہجے میں رعب برقرار رکھتے ہوئے کہا۔ ’’میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے، لیکن تمہاری خوشی کی خاطر… چلو!‘‘۔
شکتی مجھے ساتھ لے کر حویلی کی طرف بڑھا۔ میں نے پلٹ کر ظہیر کی طرف دیکھا اور آواز لگائی۔ ’’اوئے یشونت… تُو بھی آجا یار… چاء شاء پی لے۔ بڑا لمبا سفر کیا ہے‘‘۔
شکتی نے پُر جوش انداز میں میری رائے کی تائید کی۔ میں نے اسے بتایا۔ ’’یہ جوان میرا باڈی گارڈ بھی ہے۔ بڑا جی دار بچہ ہے‘‘۔
شکتی ببر نے جیب سے بڑی سی چابی نکال کر حویلی کے دروازے میں لگے تالے میں لگائی تو اندازہ ہوا کہ حویلی میں اس وقت کوئی نہیں ہے۔ شکتی نے فوراً ہی میرے خیال کی تائید کر دی۔ ’’میری ووہٹی میرے بیٹے کے ساتھ میرے سسرال بیگووال گئی ہوئی ہے۔ کل رات تک واپسی ہوگی‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’یہ تو اچھی بات ہے۔ کیونکہ میں جس مقصد کے لیے آیا ہوں، وہ رازداری کا تقاضا کرتا ہے‘‘۔
اس اثنا میں وہ گھر کا دروازہ کھول کر ہمیں اندر لے آیا تھا اور ہم نشست گاہ میں بچھی سیٹھیوں پر بیٹھ گئے۔ میں نے ظہیر کو بھی اشارے سے بلاکر اپنے پاس ہی بٹھا لیا تھا۔ شکتی بھی میرے سامنے ہی بیٹھ گیا۔ وہ میری آمد پر خود کو خوش ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا تھا، لیکن میں نے بھانپ لیا تھا کہ وہ دل ہی دل میں کافی مضطرب ہے۔ اس کی اس کیفیت کی وجہ سمجھنا بھی میرے لیے مشکل نہیں تھا۔
شکتی نے رسمی حال احوال کے تبادلے کے بعد چائے پانی کے انتظام کے لیے رخصت طلب کی، لیکن میں نے اسے روک دیا۔ ’’کسی تکلف کی ضرورت نہیں شکتی جی۔ بہتر ہے ہم وقت ضائع کیے بغیر کام کی بات کرلیں، کیونکہ اگر آپ سے کام نہ بنا تو مجھے اپنا مقصد پورا کرنے کے لیے کوئی اور طریقہ ڈھونڈنا ہوگا‘‘۔
شکتی میری بات سن کر چونکا اور پھر اضطراب بھرے لہجے میں کہا۔ ’’حکم کریں سرکار۔ میں آپ کے کس کام آ سکتا ہوں!‘‘۔
میں نے ایک نظر ظہیر پر ڈالی اور سنجیدہ لہجے میں بات شروع کی۔ ’’یشونت نے شاید آپ کو میرے بارے میں بتایا ہوگا۔ نرائن گڑھ میں آٹھ نو مربع زمیں داری اور دو چار چھوٹے بڑے کاروباروں سے میری روٹی چل رہی ہے۔ اور تو سب ٹھیک ہے، لیکن شکار کا شوق ایک ایسا روگ بن گیا ہے، جو شاید میری موت کے بعد ہی چھوٹے گا۔ اس سے بھی بڑی مصیبت مہمان داری کی عادت ہے۔ میرے ہی جیسے درجنوں گھربار سے فارغ دوست میری جاگیر پر آتے رہتے ہیں‘‘۔
میں شکتی ببر پر اپنے الفاظ کا اثر دیکھنے کے لیے رکا۔ وہ پوری توجہ سے میری بات سن رہا تھا اور یقیناً اس تمہید کا مطلب بھی سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوگا۔ میں نے مطمئن ہوکر بات آگے بڑھائی۔ ’’مجھے اپنے دوستوں پر ہمیشہ سے یہ سبقت حاصل رہی ہے کہ میں انہیں جب وہ فرمائش کریں، شکار پر لے جاتا ہوں۔ ان میں زیادہ تر ہرن، سانبھر، سور وغیرہ کا شکار کر کے شوق پورا کرلیتے ہیں۔ لیکن دو چار ایسے بھی ہیں، جو بڑا شکار بھی کر چکے ہیں۔ میرا مطلب سمجھ رہے ہو ناں؟ شیر اور تیندوا وغیرہ!‘‘۔
شکتی نے اثبات میں سر ہلایا۔ میں نے بات آگے بڑھائی۔ ’’لیکن اس بار میری بدبختی نے دھکا دیا تو میں نے خود اپنے آٹھ دس قریب ترین دوستوں کو بڑا شکار کھلانے کی پیشکش کر دی، جو انہوں نے نہایت جوش و اشتیاق کے ساتھ قبول کرلی۔ پروگرام کے مطابق وہ سب آج سے چوتھے دن ہندوستان کے مختلف حصوں سے نرائن گڑھ میں میری جاگیر پر اکٹھے ہونے والے ہیں‘‘۔
میرا میزبان بدستور دلچسپی سے میری بات سن رہا تھا۔ مجھے پتا تھا کہ وہ میری بات کاٹ کر میر ی اپنے گھر آمد کا مقصد پوچھنے کے لیے بے تاب ہے۔ لیکن میری طرف سے بٹھائے گئے رعب و داب کی وجہ سے وہ زبان کھولنے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا۔ یا پھر ہوسکتا ہے وہ مداخلت کرنے کے بجائے خود میری زبان سے سننا چاہتا ہو۔
میں نے اپنی بات آگے بڑھائی۔ ’’تم خود زمیندار ہو، سمجھ سکتے ہو کہ ہم جیسے لوگوں کے لیے اپنی عزت اور وقار سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا۔ اپنی ناک کٹوانے کے بجائے ہم جان دینا بہتر سمجھتے ہیں۔ تو یوں سمجھ لو شکتی جی، کہ میری ایک ذرا سی غلطی کی وجہ سے میری عزت داؤ پر لگ گئی ہے، اور میں یہ امید لے کر تمہارے پاس آیا ہوں کہ تم میری ناک کٹنے سے بچا سکتے ہو‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment