بابانوگزا کی قبر کے سرہانے قرآن کی تعلیم دی جاتی ہے

احمد خلیل جازم
بابا نوگزے کی قبر گزشتہ 45 برس سے مولانا رشید کی زیر نگرانی ہے۔ مولانا رشید کا بتانا تھا کہ ’’قبر پر منقش ٹائلیں آج بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ جب ہم یہاں آئے تو یہ ٹائلیں لگی ہوئی تھیں، جو ملک خضر حیات ٹوانہ نے لگوائی تھیں۔ دراصل قبر ملک خضر حیات ٹوانہ نے پختہ کرائی تھی، پہلے قبر کچی تھی‘‘۔ مولانا رشید چونکہ مدرسے کے مہتمم ہیں اور یہ نوگزی قبر اب اسی مدرسے کے اندر واقع ہے، اس لیے اس کی تمام تر ذمہ داری مولانا رشید نبھا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ’’میںاس مدرسے میں 1975-74ء میں راولپنڈی آیا اور یہیں پر قرآن کریم حفظ کیا۔‘‘ ان سے سب سے پہلا سوال یہ کیا کہ غیر مستند دعوے کئے جاتے ہیں کہ اس خطے میں درجنوں کے حساب سے انبیاء کرام آئے اور ان کے مدفن بھی یہیں موجود ہیں۔ اس پر مولانا رشید کا کہنا تھا کہ ’’ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا کرام اللہ نے دنیا میں بھیجے۔ ظاہر ہے ان کے مدفن بھی اسی زمین پر ہیں۔ اب ان نوگزی قبور کے حوالے سے میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ اس بارے صرف اللہ کی ذات ہی جانتی ہے کہ ان میں کون دفن ہیں۔‘‘ مولانا رشید کا مزید کہنا تھا کہ ’’رہی بات کشف القبور کی تو جیسے جیسے انسان تصوف کے مراحل طے کرتا ہے اللہ کے نزدیک ہوتا ہے تو اس پر ایسے راز افشا ہونا شرو ع ہوجاتے ہیں۔ بعض بزرگوں کا کہنا ہے کہ ایسی باتوں کو عام لوگوں پر افشا نہیں کرنا چاہیے، بعض لوگ افشا کردیتے ہیں ۔ حافظ شمس الحق بھی ایسے ہی اللہ کے ولی تھے۔ انہوں نے یہ راز کیوں افشا کردئیے؟ اس پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ انبیا کرام کے معجزے ہوتے ہیں اور صالحین سے کرامات منسوب ہوتی ہیں، یہ وہی کرامات ہیں۔ ہر شخص جس طرف محنت کرتا ہے، اسی ہنر میں اسے ملکہ حاصل ہوتا ہے۔ حافظ صاحب کو کشف القبور پر ملکہ حاصل تھا۔‘‘
مولانا رشید کو اصل ٹاپک کی طرف لاتے ہوئے پیر نوگزے کے بارے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ’’جس وقت میں اور میرے بڑے بھائی صاحب یہاںآئے تو سارا علاقہ گھنی جھاڑیوں سے اٹا ہوا تھا۔اس کے علاوہ یہاں پھلائی کے بہت زیادہ درخت تھے۔ بلکہ مین پشاور روڈ پھلاہی کے درختوں سے گھرا ہوا تھا۔ میرے بڑے بھائی قاری سلیمان پشاور روڈ پر واقع اکسیر مسجد میں بطور امام مسجد آئے۔ ایک روزمیرے بھائی اس طرف آنکلے تو انہوں نے دیکھا کہ اس نوگز لمبی قبر کے ساتھ ایک مسجد بنی ہوئی ہے، یعنی یہ مسجد جو آپ دیکھ رہے ہیں اسی جگہ پر ایک اور مسجد تھی۔ آپ حیران ہوں گے کہ اس مسجد کی تعمیر نو ملک خضر حیات ٹوانہ نے کی تھی۔1957ء میں اس قبر کے ساتھ خضر حیات نے یہ مسجد اس لیے بنوائی تھی کہ وہ یہاں اپنے مہمانوں کے ساتھ شکار کھیلنے آتا تھا، یہ ساری جگہ اس نے خرید رکھی تھی۔ ملک خضرحیات نے بھی مسجد کی تعمیر نو کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں 1935ء میں بھی مسجد موجود تھی بلکہ مجھے تو ایک ایسا شخص بھی ملا ہے جس نے بتایا تھا کہ یہ مسجد اور قبر1923ء میں بھی موجود تھی۔ لیکن اونچی ٹیکری پر تھی جس پر مسجد بنی ہوئی تھی۔ بعد میںخضر حیات ٹوانہ نے یہ جگہ خریدی تو مسجد کی تعمیر نو کی گئی۔ دراصل مسجد اور قبر سے پیچھے جو زمین تھی وہ اکسیر خان کی تھی اور مسجد سے آگے جو حد شروع ہوتی ہے وہ خضر حیات کی تھی۔ ملک اکسیر وہی ہیں جن کے نام کا مصریال روڈ پر معروف پلازہ اکسیر پلازہ ہے۔ بعد ازاں خضر حیات کی وفات کے بعد ان کی اولاد یہ زمین بیچ گئی۔1975ء میں خضر حیات کی وفات کے بعد اس کی اولاد اور بیویاں جن میں ایک کا نام عطیہ تھا وہ یہاں آتے تھے۔ ایک انگریز بیوی بھی تھی، وہ بھی آتی تھی۔ ان کے ملازمین بھی یہاں موجود ہوتے ان میں ایک پرانا خدمت گار بابا عبداللہ تھا۔ وہ بہت اعلیٰ اور نیک انسان تھا۔ اس سے ہم نے اس قبر کے بارے میں پوچھا تو اس کا کہنا تھا کہ جب ہم لوگ یہاںآئے تو یہ کچی قبر تھی، اور اکلوتی قبر تھی، چنانچہ خضرحیات ٹوانہ نے اس پر ٹائلیں لگوائیں۔ ابھی بھی بعض منقش ٹائلیں غور کریں تو دکھائی دیتی ہیں۔ بابا عبداللہ کا کہنا تھا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ قبر نہیں ہے بلکہ یہاں غازی صاحب کا نیزہ دفن ہے۔ کچھ لوگ اسے غازی عباس کا نیزہ کہتے اور بعض لوگ کسی اور غازی سے اس نیزے کو منسوب کرتے تھے۔ بابا عبداللہ چونکہ بہت بزرگ آدمی تھا اور بڑی اچھی یادداشت رکھتا تھا، لہٰذا وہ بڑے مزے سے یہ کہانی بتایا کرتا تھا۔ اس وقت سے لوگوں کا آنا جانا تھا، لیکن اس وقت یہاں غیر شرعی کام اسی طرح شروع ہوگئے جیسے بعض مزاروں پر آپ دیکھتے ہیں۔ چنانچہ جو مسجد تھی وہ بھی ویران ہونا شروع ہوگئی۔ بابا عبداللہ کبھی کبھار آکر اذان دے جاتا تھا، لیکن مسجد نماز کے بجائے ایک سرائے کے طورپر استعمال ہونا شروع ہوچکی تھی۔ اکسیر خان اس وقت فوت ہوچکا تھا۔ جبکہ اس کے بیٹے فاروق سے میرے بھائی کا تعلق تھا کہ وہ مسجد اکسیر کے امام تھے۔چنانچہ میرے نے مسجد کی حالت دیکھ کر فاروق خان سے کہا کہ آپ سے اس بارے پوچھا جائے گا۔ اس نے کہا کون اس کی دیکھ بھال کرے تو بھائی نے حامی بھر لی اور فاروق نے مسجد میرے بھائی صاحب کے حوالے کردی،کیونکہ اب یہ زمین انہی کے پاس تھی۔ چنانچہ فاروق خان نے بھائی کے ساتھ مل کر مسجد کو دھو کر صاف کیا اور 1975ء میں اسے آباد کیا۔ مزار پر لوگوں کا آنا جانا رہتا تھا، لیکن وہاں دعا و قرآن پڑھنے سے زیادہ میلے ٹھیلے اور دیگر ناگفتہ معاملات شروع ہوگئے تھے۔ چنانچہ آہستہ آہستہ ان معاملات سے قبر کو آزاد کرایا گیا۔ اب صبح شام یہاں قرآن پاک کی تعلیم دی جاتی ہے۔ صبح اذان کے اوقات میں قرآن شروع ہوتاہے اور عشاء تک قرآن بھی پڑھا جاتا ہے اور نماز بھی ادا ہوتی ہے۔ اس حوالے سے شواہد تو یہی ہیں کہ اسے زیادہ تر لوگ پیر نوگزا اور بعض لوگ بابانوگزا کہتے ہیں، وہی یہاں دفن ہیں۔ صرف بابا عبداللہ کے مطابق کچھ لوگ کہتے تھے کہ یہاں نیزہ دفن ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہاں کوئی اللہ کا نیک بندہ ہی دفن ہے جس کے سرہانے قرآن پڑھا جاتا ہے۔‘‘ اسی قبر والے کمرے کی بیرونی سمت سیڑھیوں کے پاس کچھ دیگر قبریں بھی موجود ہیں جس کے بارے میں مولانا رشید کا کہنا تھا کہ یہ مقامی لوگوں کی قبریں ہیں۔ چونکہ یہاں نوگزی قبر موجو تھی تو لوگوں نے اس کے ساتھ اپنے مردے دفنا کر قبرستان کی شکل دینے کی کوشش کی، لیکن بعد ازاں مدرسہ قائم ہوا تو یہ سلسلہ رک گیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ یہ تمام جگہ بہت قیمتی ہے اس لیے بعض لوگ قبر کے بہانے مدرسے اور اس سے ملحقہ زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش میں ہیں۔ جبکہ مولانا رشید کاکہنا تھا کہ یہاں دوردراز سے بچے مذہبی تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔ ہم نے نصف صدی سے یہاں یہ مدرسہ اور خوبصورت مسجد تعمیرکرائی ہے۔ اب کیسے یہ سب اپنے ہاتھوں سے اجاڑ دیں۔
چونکہ اس حوالے سے مزید کچھ لکھنا مناسب نہیں ہے اس لیے اسی پر اکتفا کیا جاتا ہے کہ بابا نوگزا کی قبر صدیوںسے زمانے کے رنگ ڈھنگ دیکھتی ہوئی اب ایک ایسے کمرے میں محفوظ ہے جس کے چاروں طرف بڑی بڑی کوٹھیاں اور بنگلے بنا دئیے گئے ہیں۔ لیکن ان کا سرہانا آج بھی اللہ کی بڑائی اور قرآن کریم کی تلاوت سے گونج رہا ہے۔ قبر کے اندر نیزہ ہے یا کوئی ولی کامل، پیغمبر ہے یا پھر کسی نبی کی اولاد؟ اس کے بارے میں اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ۔ واللہ اعلم باالصواب۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment