محمد زبیر خان
اکتوبر 2005ء کے زلزلے میں تباہ ہونے والے بالاکوٹ کو دوبارہ بسانے کی امید پیدا ہو گئی۔ ایرا سمیت وفاقی اور صوبائی محکموں نے سپریم کورٹ میں بیان حلفی جمع کرا دیا ہے کہ وہ نیو بکریال یا نیو بالاکوٹ سٹی کے نام سے نئی بستی ڈھائی سال میں مکمل تعمیر کریں گے۔ عدالت عظمیٰ نے اس بیان حلفی کو فیصلے کا حصہ بنا دیا ہے۔ وفاقی اور صوبائی محکموں کی جانب سے سپریم کورٹ میں رپورٹ پیش کی گئی ہے کہ متاثرین بالاکوٹ کیلئے نیو بکریال یا نیو بالاکوٹ سٹی کی تعمیر میں تاخیر کی وجہ سے لاگت بارہ ارب سے بڑھ کر سولہ ارب تک پہنچ چکی ہے۔ وفاقی حکومت منصوبے کیلئے فی الفور ایک ارب روپے جاری کرے گی اور ایرا نظر ثانی شدہ پی سی ون تیار کرے گا۔ دوسری جانب متاثرین بالاکوٹ نے فیصلے پر اظہار اطمینان کیا ہے۔ عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں توہین عدالت درخواست دائر کی جائے گی۔
واضح رہے کہ اکتوبر 2005ء کے زلزلہ نے تاریخی شہر بالاکوٹ کو بھی شدید نقصان پہنچایا تھا اور ملکی اور بین الاقوامی ماہرین نے مختلف رپورٹوں کے بعد قرار دیا تھا کہ بالاکوٹ مستقبل میں بھی زلزلوں کی زد میں آ سکتا ہے۔ جس کے بعد حکومت نے ملکی اور بین الاقوامی ماہرین کی مشاورت سے بالاکوٹ کو رہائش کے لئے ممنوع قرار دیتے ہوئے نیو بکریال یا نیو بالاکوٹ سٹی کا منصوبہ تیار کیا تھا، جہاں پر متاثرین بالاکوٹ کو بسایا جانا تھا۔ اس کے لئے بیرون ممالک سے بھی فنڈز اکٹھے کئے گئے تھے۔ مگر تقریباً چودہ سال بعد بھی مختلف وجوہات کی بنا پر منصوبے پر صرف ابتدائی کام ہی کیا جا سکا۔ بالاکوٹ کے زلزلہ متاثرین اس وقت بھی ٹینٹوں اور عارضی شیلٹرز میں سخت گرمی اور شدید سردیاں برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ متاثرین بالاکوٹ نے اس پر کئی بار احتجاج بھی کئے تھے اور سپریم کورٹ کو درخواستیں بھی ارسال کی گئی تھیں۔ جس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے سوموٹو ایکشن لیا تھا اور اس حوالے سے کئی سماعتیں بھی ہوئی تھیں۔ تاہم اب گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں تمام اسٹیک ہولڈرز جس میں صوبائی اور وفاقی محکمے شامل تھے، کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی، جس میں تقریباً تمام فیصلے باہمی مشاورت سے کئے گئے اور باقاعدہ عدالت میں بیان حلفی جمع کرایا گیا۔
عدالت میں بالا کوٹ کے زلزلہ متاثرین کی نمائندگی کرنے والے منیر لغمانی ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ سپریم کورٹ میں تمام محکموں کو موقع دیا گیا کہ وہ متاثرین بالاکوٹ کے مسائل کو حل کرنے کے لئے خود ہی تجاویز پیش کرکے ان پر عملدرآمد کریں۔ ان کی تجاویز کو بعد ازاں بیان حلفی کی صورت میں عدالتی فیصلے کا حصہ بھی بنایا گیا ہے۔ منیر لغمانی کے مطابق عدالت میں اس موقع پر ڈپٹی کمشنر مانسہرہ بھی موجود تھے۔ جنہوں نے عدالت میں بیان داخل کروایا ہے کہ نیو بالاکوٹ سٹی یا نیو بکریال سٹی کے لئے پچانوے فیصد زمین پر قبضہ حاصل کرلیا گیا ہے اور اگر ایرا اپنا کام دوبارہ شروع کرے تو انتظامیہ نہ صرف یہ کہ ایرا کو مکمل تحفظ فراہم کرے گی، بلکہ باقی چھ فیصد کا قبضہ بھی مذکورہ لوگوں سے مذاکرات کے بعد حاصل کرکے ایرا کے سپرد کر دیا جائے گا۔ اسی طرح وفاقی وزارت خزانہ کے ڈپٹی سیکریٹری نے عدالت میں بیان حلفی جمع کروایا کہ اگر ایرا اس کے لئے کام شروع کرے تو وہ فوری طور پر ایک ارب روپے جاری کرنے کو تیار ہیں۔ جبکہ ایرا کے پاس خود بھی فنڈز موجود ہیں۔ جبکہ وزارت خزانہ اور منصوبہ بندی کے اعلیٰ افسر نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ تاخیر کی وجہ سے اس منصوبے کی تعمیری لاگت میں بھی اضافہ ہو چکا ہے اور منصوبے کا بجٹ بارہ ارب روپے سے بڑھ کر سولہ ارب تک پہنچ چکا ہے۔ جس کے لئے نظر ثانی پی سی ون پیش کیا جائے گا۔ اسی طرح باقی محمکوں نے بھی منصوبے کے حوالے سے حائل رکاوٹیں بروقت دور کرنے کے بیان حلفی جمع کروائے ہیں۔ ایک سوال پر منیر لغمانی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں ایرا نے عدالت میں بیان حلفی جمع کروایا ہے کہ اگر تمام حائل رکاوٹیں بروقت دور ہو جائیں تو وہ ڈھائی سال کی مدت میں منصوبہ مکمل کرسکتے ہیں۔ عدالت نے ایرا کے بیان حلفی کو بھی فیصلے کا حصہ بنا دیا ہے۔ منیر لغمانی ایڈووکیٹ کے بقول سماعت کے موقع پر تمام اسٹیک ہولڈر محکموں کے علاوہ تین سول افراد جن میں وہ خود، شیراز محمود قریشی اور مانسہرہ ضلع کے بار کے صدر بشارت خان ایڈووکیٹ پر مشتمل اپیکس کمیٹی بھی قائم کی گئی ہے، جو تمام معاملات کی نگرانی کرے گی۔ ایک اور سوال پر انہوں نے بتایا کہ متاثرین اس فیصلے پر مطمئن ہیں۔ اب سب کچھ سپریم کورٹ میں ریکارڈ کا حصہ بن چکا ہے۔ تمام ادارے پابند ہیں کہ وہ اپنے بیان حلفی کی پاسداری اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کریں۔ تاہم اگر اس حوالے سے کوئی بھی رکاوٹ ہوئی تو وہ دوبارہ سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے اور توہین عدالت کی درخواست دائر کی جائے گی۔ ٭
٭٭٭٭٭