تابعین کے ایمان افروز واقعات

میمونؒ کہتے ہیں کہ عبد الملکؒ میری کڑوی باتیں سن کر مسکرایا اور بڑے ادب سے کہنے لگا: چچا جان ناراض نہ ہوں، غسل خانے کے مالک کو دن بھر کی اجرت دے کر خوش کرلوں گا۔
میں نے کہا: اس طرح تم وہ فضول خرچی کروگے، جس میں تکبر کی ملاوٹ بھی پائی جاتی ہے۔ یاد رکھو! تم بھی دوسرے مسلمانوں جیسے ہو، عام لوگوں کی طرح تم بھی حمام استعمال کرنے کے لیے جایا کرو۔
اس نے کہا: چچا جان! دراصل بعض اوقات غیر مہذب قسم کے لوگ پردے کا اہتمام کئے بغیر نہاتے ہیں، مجھے اس سے تکلیف ہوتی ہے، اس لیے میں اکیلا نہانا پسند کرتا ہوں اور یہی ایک طریقہ ہے، جس سے دوسروں پر بدنگاہی سے حفاظت کی جا سکتی ہے۔ اور مجھے لوگوں پر جبر کرنا اچھا نہیں لگتا کہ لوگ سمجھیں بادشاہ کا بیٹا ہونے کی بنا پر ہم پر زور چلا رہا ہے، حق تعالیٰ ہمیں عافیت کے ساتھ اس سے چھٹکارا دے دے یا آپ مجھے کوئی تدبیر بتائیں کہ میںکیا کروں، حق تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے۔
میں نے کہا: تم لوگوں کی فراغت کا انتظار کیا کرو۔ جب وہ حمام میں غسل کر کے اپنے اپنے گھر چلے جائیں تو پھر تم نہانے کے لیے جایا کرو۔
عبد الملکؒ نے کہا: میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ ایسے ہی کیا کروں گا۔ آج کے بعد کبھی بھی دن کے وقت حمام کا رخ نہیں کروں گا۔ دراصل اس علاقے کی سردی کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں پہلے بھی دن کو حمام کا رخ نہ کرتا۔
پھر سر نیچا کر کے کچھ سوچنے لگا، پھر سر اوپر اٹھایا اور مجھے کہا: ’’بخدا! یہ بات میرے اباجان کو نہ بتانا، انہیں یہ سن کر دلی کوفت ہوگی، میں نہیں چاہتا کہ وہ مجھ پر ناراض ہوں اور اسی حالت میں ان کا انتقال ہو جائے اور میں دور ہونے کی وجہ سے معافی بھی نہ مانگ سکوں۔‘‘
میمونؒ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایسے نازک موقع پر اس کی عقل و سمجھ کا امتحان لینے کا ارادہ کیا۔
میں نے کہا: اگر امیر المؤمنین نے مجھ سے پوچھا کہ تم نے اس میں کوئی بری عادت تو نہیں دیکھی، تمہارا کیا خیال ہے میں ان سے جھوٹ بولوں؟
اس نے کہا: چچا جان! خدا کی پناہ! خدا کی پناہ! آپ جھوٹ نہ بولیں۔ اس سے خدا بچائے، جب ابا جان یہ سوال کریں تو آپ پوری وضاحت سے یہ کہہ دینا کہ میں نے ایک بری عادت دیکھی تھی۔ لیکن میں نے اسے سمجھا دیا اور وہ باز آگیا۔ مجھے امید ہے کہ ابا جان پوشیدہ عیب کو کریدیں گے نہیں، کیوں کہ رب تعالیٰ نے انہیں پوشیدہ عیوب کو کریدنے سے محفوظ رکھا ہے۔‘‘
جناب میمونؒ کہتے ہیں: ’’میں نے امیر المومنین عمر بن عبدالعزیزؒ جیسا باپ نہیں دیکھا اور نہ ہی عبدالملکؒ جیسا کوئی بیٹا! حق تعالیٰ دونوں پر اپنی بے پناہ رحمت کرے۔‘‘
(والدین کے حقوق پہچاننے کے لیے کتاب ’’والدین کی قدر کیجئے‘‘ کا مطالعہ ہر بھائی بہن کے لیے بہت ہی فائدہ مند ہوگا۔)
حق تعالیٰ پانچویں خلیفہ راشد امیر المؤمنین عمر بن عبدالعزیزؒ سے راضی ہو اور انہیں اپنے خصوصی انعامات سے نواز کر خوش کردے۔ ان کی اور ان کے لخت جگر عبد الملکؒ کی قبر کو جنت کا باغ بنا دے۔ اور ان پر سلامتی ہو اس دن جس دن یہ باپ بیٹا اپنے رب سے ملیں اور انہیں سلام پیش کیا جائے جب یہ نیک لوگوں کے ساتھ قیامت کے دن اٹھائے جائیں۔
اس واقعہ میں آپ نے پڑھا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے پاس جب پروانہ خلافت آیا تو آپؒ نے تمام مسلمانوں کو مسجد میں جمع ہونے کا حکم فرمایا، کیوں کہ پہلے زمانے میں جب بھی کوئی اہم بات ہوتی لوگ مسجد جمع ہوجاتے اور وہیں بیٹھ کر سوچتے اور مشورہ کرتے، ہمیں بھی چاہئے کہ ہم مسجد سے اپنا تعلق بڑھائیں، کوئی بھی مسئلہ ہو مسجد میں دو رکعت پڑھ کر دعا مانگ کر پھر وہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کریں۔
دوسری بات یہ پتہ چلی کہ دنیا میں کسی کو لمبی عمر ملنا بھی حق تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے، لیکن جو لوگ اس نعمت کی ناشکری کرتے ہیں اور رب تعالیٰ پر ایمان نہیں لاتے اور اس مہلت سے فائدہ نہیں اٹھاتے ان کے ساتھ قیامت کے دن کیا معاملہ کیا جائے گا؟ ایسے لوگوں کے بارے میں رب العزت کا ارشاد ہے:
ترجمہ: ’’بھلا دیکھو تو اگر ہم ان کو چند سال تک عیش میں رہنے دیں، پھر جس کا ان سے وعدہ ہے وہ ان کے سر پر آپڑے، تو ان کا وہ عیش کس کام آسکتا ہے۔‘‘ (الشعرائ: 205 الی 207) (ازبیان القرآن: ص 738)
امام زہریؒ نے نقل فرمایا ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ روز صبح کو اپنی داڑھی پکڑ کر اپنے نفس کو خطاب کر کے سورہ مریم کی مذکورہ آیات پڑھا کرتے تھے، اس کے بعد ان پر گریہ طاری ہو جاتا اور پھر وہ یہ اشعار پڑھتے تھے:
ترجمہ: ’’اے فریب خوردہ (یعنی دھوکے میں پڑے ہوئے) تیرا سارا دن غفلت میں اور رات نیند میں صرف ہوتی ہے، حالاں کہ موت تیرے لیے لازمی ہے۔ نہ تو بیدار لوگوں میں ہوشیار و بیدار ہے اور نہ سونے والوں میں اپنی نجات پر مطمئن ہے۔ تیری کوشش ایسے کاموں میں رہتی ہے، جس کا انجام عن قریب ناگوار صورت میں سامنے آئے گا، دنیا میں چوپائے ایسے ہی جیا کرتے ہیں۔‘‘ (از معارف القرآن: 552/6)
والدین کو چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کی فکر فرماتے رہیں، مطمئن ہوکر غافل نہ ہوجائیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ جیسے والد ہوں اور عبدالملک جیسے نیک وصالح فرزند ہوں پھر بھی والد محترم دور رہتے ہوئے بھی ان کی تربیت اور نفس و شیطان سے حفاظت کی فکر و دعا فرماتے رہتے تھے۔ انبیاء کرامؑ شروع سے یعنی پیدائش سے پہلے اور پیدائش کے بعد مستقل اولاد کی تربیت، ہدایت و عافیت کے لیے دعا مانگا کرتے تھے، انبیاء ؑ کی جو دعائیں قرآن کریم میں مذکورہ ہیں ان کو اہتمام سے مانگنا چاہئے، مثلاً:
ترجمہ: ’’اے رب بخش مجھ کو کوئی نیک بیٹا‘‘
کتنی مختصر اور جامع دعا ہے، اس کو چلتے پھرتے کثرت سے مانگا کریں اور اپنی اہلیہ کو بھی ترغیب دیں، خاص طور پر زمانہ حمل میں تو آپ اور آپ اہلیہ اس دعا کو اپنا اوڑھنا بچھونا، بنالیں، رب کریم آپ کو ایسی اولاد عطا فرمائیں گے کہ جو آپ کی بلکہ آپ کے خاندان اور نسلوں کے لیے بھی دین و دنیا کی کامرانیوں کا سبب بنے گی۔
ترجمہ: ’’اے میرے رب! اس شہر (مکہ) کو امن والا بنا دیجئے اور مجھ کو اور میری اولاد کو بتوں کی عبادت سے بچائے رکھئے۔‘‘(الصفت: 100)
یہ دعا شرک سے بچنے کے لیے، خدا تعالی کی ذات وحدہ لاشریک لہ پر مکمل ایمان رکھنے والا بننے کے لیے اور عقیدہ توحید پر مضبوط ہونے کے لیے بہترین ہے۔ (الابراھیم: 35)
اس دعا کے بارے میں مفتی محمد شفیع صاحبؒ لکھتے ہیں: انبیائؑ اگرچہ معصوم ہوتے ہیں، ان سے شرک و بت پرستی بلکہ کوئی گناہ سرزد نہیں ہوسکتا، مگر یہاں حضرت ابراہیمؑ نے اس دعا میں اپنے آپ کو بھی شامل فرمایا ہے۔ اس کی وجہ یا تو یہ ہے کہ طبعی خوف کے اثر سے انبیائؑ بھی ہر وقت اپنے آپ کو خطرہ میں محسوس کرتے رہتے ہیں یا یہ کہ اصل مقصود اپنی اولاد کو شرک سے بچانے کی دعا کرنا تھا، اولاد کو اس کی اہمیت سمجھانے کے لیے اپنے آپ کو بھی شامل فرما لیا، خدا جل شانہ نے اپنے خلیلؑ کی دعا قبول فرمائی ان کی اولاد شرک و بت پرستی سے محفوظ رہی۔‘‘ (معارف القرآن: 260/5)
ترجمہ: ’’اے میرے پالنے والے! مجھے نماز کا پابند رکھ اور میری اولاد سے بھی، اے ہمارے رب مری (یہ) دعا قبول کیجئے۔‘‘ (الابراھیم: 40)
یہ مشہور دعا ہے جو اکثر نماز میں دورد شریف کے بعد بھی پڑھی جاتی ہے، دراصل اپنی اولاد کی سب سے بڑی خیر خواہی یہ ہے کہ انہیں نماز کا پابند بنا دیا جائے، اسی لیے حضرت ابراہیمؑ نے دعا میں نہ صرف اپنی اولاد کے لیے بلکہ آنے والی تمام نسلوں کے لیے خدا تعالیٰ سے نماز کی پابندی کی دعا مانگی ہے۔
ہر مسلمان اور خصوصاً والد کو سب سے زیادہ اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اس کے گھر والے خصوصاً بیوی بچے نماز کے پابند ہیں، اس کے ساتھ ساتھ اس دعا کا بھی خوب اہتمام کریں۔ مسلمان والد کو چاہئے کہ اپنے بیٹے اور بیٹی کے لیے دین و دنیا کی بھلائی کی دعا کرے اور خوب اخلاص کے ساتھ دعا کرے:
خدایا! میرے بیٹے اور بیٹی کا پکا دین دار اور خالص مسلمان بنا، اپنے نازل کردہ دین اور اپنے رسولؐ کے بتائے ہوئے مبارک طریقوں پر چلنے کی توفیق عطا فرما اور اس پر ان کو قائم رکھ۔ خدایا! ان کو دنیا کے اندر دین محمدیؐ کے پھیلانے کا ذریعہ بنا، انہیں دین کا خادم اور دین پر اپنا سب کچھ قربان کرنے والا بنا۔ خدایا! انہیں عالم عالمہ، حافظ حافظہ، داعی داعیہ، مبلغ مبلغہ بنا، ان کو ہدایت یافتہ و ہادی بنا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment