ایک بابرکت نکاح:
حضرت جلیبیبؓ ایک انصاری صحابی تھے، نہ مالدار تھے اور نہ ہی معروف خاندان سے تعلق تھا، رنگ بھی سانولہ تھا، رسول اقدسؐ کی خدمت میں حاضر ہوتے، علم سیکھتے اور آپؐ کی صحبت سے مستفید ہوتے، ایک دن رسول اقدسؐ ان سے گویا ہوئے اور فرمایا:
’’اے جلیبیب! شادی نہیں کرو گے؟‘‘
انہوں نے عرض کیا: ’’حضور! مجھ جیسے شخص سے بھلا کون شادی کرنا پسند کرے گا؟‘‘
آپؐ نے پھر فرمایا: ’’جلیبیب! شادی نہیں کرو گے ؟‘‘
انہوں نے پھر جواب دیا: ’’مجھ سے بھلا شادی کون کرے گا، نہ مال ہے اور نہ کچھ اور؟‘‘
آپؐ نے تیسری مرتبہ اپنی بات دوہرائی اور جواب میں انہوں نے پھر یہی کہا کہ حضور! مجھ سے شادی کون کرے گا؟ تو آپؐ نے فرمایا:
’’فلاں انصاری کے گھر جاؤ اور ان سے کہو کہ رسول اقدسؐ تمہیں سلام کہہ رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ اپنی بیٹی سے میری شادی کر دو۔‘‘
جلیبیبؓ روانہ ہوئے، انصار ی کے گھر پہنچے اور دروازے پر دستک دی، گھر والوں نے پوچھا: کون ؟کہا جلیبیب۔ گھر والوں نے کہا ہم تو تمہیں نہیں جانتے اور نہ ہی تم سے ہماری کوئی غرض ہے۔ خیر گھر کا مالک باہر نکلا، پوچھا کیا چاہتے ہو، کدھر سے آئے ہو؟
کہا ’’رسول اقدسؐ نے تمہیں سلام بھجوایا ہے۔‘‘ یہ سن کر گھر والے بہت خوش ہوئے، پھر کہا ’’اور تمہیں حکم دیا ہے کہ تم اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کر دو۔‘‘
گھر والے نے کہا ’’ذرا ٹھہرو، میں لڑکی کی ماں سے مشورہ کر لوں۔‘‘ اندر جا کر جب ماں کو یہ بات پہنچائی تو وہ کہنے لگی ’’نا،نا، نا،نا… خدا کی قسم میں اپنی بیٹی کی شادی ایسے شخص سے نہیں کروں گی۔‘‘
ان کی لڑکی گھر میں ہونے والی گفتگو سن رہی تھی، اس نے والدین کی طرف دیکھا اور کہنے لگی:’’کیا آپ لوگ رسول اقدسؐ کے حکم کو ٹھکرانا چاہتے ہیں! مجھے رسول اقدسؐ کے حوالے کر دیجئے، آپؐ مجھے ضائع نہیں فرمائیں گے۔‘‘
پھر اس نے اس آیت کریمہ کی تلاوت کی:
ترجمہ: ’’اور کسی مومن مرد و عورت کو خدا اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا۔‘‘ (الاحزاب : 36)
لڑکی کے والد رسول اقدسؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: حضور! آپ کا حکم سرآنکھوں پر، میں شادی کرنے کیلئے تیار ہوں، آپؐ کو جب اس لڑکی کے جواب کا علم ہوا تو آپؐ نے اس کے حق میں یہ دعا فرمائی:
’’خدایا! اس پر بھلائی کا بھر پور نزول فرما اور ان دونوں کی زندگی کو مشقت سے دور رکھ۔‘‘
بعد ازاں سیدنا جلیبیبؓ کے ساتھ اس کی شادی ہو گئی، رسول اقدسؐ کی دعا کی برکت سے یہ شادی بڑی بابرکت ثابت ہوئی، تھوڑے ہی عرصہ میں ان کے مالی حالات اس قدر اچھے ہو گئے کہ راوی کا بیان ہے:
’’وہ خاتون انصار کے سب سے زیادہ خرچ کرنے والے اور مالدار لوگوں میں سے ایک تھی۔‘‘ (موارد الظمآن:، احمد، مجمع الزوائد وغیرہ)
مولانا اشرف علی تھانویؒ لکھتے ہیں کہ حضور اقدسؐ نے جب حضرت فاطمہؓ کا عقد نکاح فرمایا تو (اپنے خادم خاص سیدنا انسؓ سے) ارشاد فرمایا کہ اے انس! جائو اور ابوبکر و عمر و عثمان و زبیر اور انصار کی ایک جماعت کو بلا لائو۔
اس سے معلوم ہوا کہ نکاح کی مجلس میں اپنے خاص لوگوں کو مدعو کرنے میں کچھ مضائقہ نہیں اور حکمت اس میں یہ ہے کہ نکاح میں اشتہار و اعلان ہو جائے جو کہ مطلوب ہے، مگر اس اجتماع میں غلو و مبالغہ نہ ہو، وقت پر بلا تکلف جو دو چار آدمی قریب و نزدیک کے جمع ہو جائیں (وہ کافی ہیں)۔ (اصلاح الرسوم صفحہ 90) (جاری ہے)
٭٭٭٭٭