موتہ کے علاقے میں اتفاق سے ان دنوں ہرقل شاہ روم بھی آیا ہوا تھا۔ شرجیل بن عمرو نے اپنی مدد کیلئے کچھ شاہی فوج بھی منگوالی اور قیس، جدام، نجم وغیرہ کے جنگجو قبائل بھی اپنے جھنڈے کے نیچے جمع کر کے تقریباً ایک لاکھ کی جمعیت کے ساتھ مسلمانوں کے مقابلہ پر ڈٹ گیا۔ غازیان دین کی تعداد صرف تین ہزار تھی۔ مزید کمک طلب کرنا ممکن نہ تھا اور پیچھے ہٹنا باعث ننگ۔رب کے بھروسے پر غنیم کے ٹڈی دل سے نبردآزما ہوگئے۔ خوفناک جنگ ہوئی۔ امیر لشکر حضرت زید بن حارثہؓ شہید ہوگئے۔
اب حضرت جعفرؓ نے علم سنبھالا اور اس جرأت اور پامردی سے لڑے کہ شجاعت بھی آفرین پکار اٹھی۔ تقریباً نوے زخم اس مرد حق نے اپنے بدن پر کھائے۔ جن میں کوئی بھی پشت پر نہ تھا۔ ایک ہاتھ قلم ہوگیا۔ تو دوسرے ہاتھ سے علم سنبھالا۔ دوسرا ہاتھ شہید ہوا تو دانتوں میں علم پکڑ لیا۔ دشمنوں کا ہر طرف سے نرغہ تھا۔ تیروں اور تلواروں کی بارش ہورہی تھی۔ آخر رسول کریمؐ کا یہ قوی بازو اور دین حق کا سچا علمبردار شہید ہو کر گرا اور علم سیدنا ابن رواحہؓ نے سنبھالا۔ وہ بھی داد شجاعت دے کر شہید ہوئے تو حضرت خالد بن ولیدؓ نے علم سنبھالا۔ موتہ کے میدان میں اب نہایت خونخوار جنگ شروع ہوگئی۔
جس وقت لڑائی کی آگ زور سے بھڑک رہی تھی، حق تعالیٰ نے میدان جنگ کا نقشہ حضور اقدسؐ کے سامنے پیش کردیا۔ جب حضرت جعفرؓ کے دونوں بازو شہید ہوگئے اور پھر خود انہوں نے بھی جام شہادت پیا تو حضور اقدسؐ کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور آپؐ نے فرمایا ’’میں جنت میں جعفرؓ کو دو نئے بازئوں کے ساتھ پرواز کرتے دیکھ رہا ہوں۔‘‘
حضوراقدسؐ کے اس ارشاد کے مطابق حضرت جعفرؓ ’’طیار‘‘ اور ذوالجناحین کے القاب سے مشہور ہوئے۔ اس کے بعد جب حضرت خالدؓبن ولید نے علم سنبھالا تو حضور اقدسؐ نے فرمایا ’’اب خدا کی تلواروں میں سے ایک تلوار نے علم سنبھالا ہے۔‘‘ چنانچہ اس دن سے حضرت خالدؓ ’’سیف اللہ‘‘ کے خطاب سے پکارے گئے۔
اس واقعہ کے بعد حضور اقدسؐ حضرت اسمائؓ کے گھر تشریف لے گئے۔ وہ اس وقت آٹا گوندھ چکی تھیں اور بچوں کو نہلا دھلا کر کپڑے پہنا رہی تھیں۔ آپؐ نے آبدیدہ ہو کر فرمایا: جعفرؓ کے بچوں کو میرے پاس لائو، حضرت اسماءؓ نے بچوں کو خدمت اقدس میں پیش کیا۔ حضور اقدسؐنے نہایت غم و اندوہ کی حالت میں ان بچوں کو گلے سے لگایا اور ان کی پیشانیاں چومیں۔
حضرت اسماءؓ حضور اقدسؐ کے آبدیدہ ہونے سے پریشان ہوئیں اور دریافت کیا: ’’حضور! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، آپ غمگین کیوں ہیں۔ کیا جعفرؓ کے متعلق کوئی خبر آئی ہے۔‘‘
حضور اقدسؐ نے فرمایا ’’ہاں وہ شہید ہوگئے۔‘‘ اس سانحہ جانگداز کی خبر سنتے ہی حضرت اسماءؓ کی چیخ نکل گئی۔ ان کی گریہ وزاری سن کر تمام مسلمان عورتیں جمع ہوگئیں۔ رحمت دو عالمؐ واپس تشریف لے گئے اور ازواج مطہراتؓ کو ہدایت فرمائی کہ آل جعفرؓ کا خیال رکھنا، وہ آج اپنے ہوش میں نہیں ہیں۔ انہیں سینہ کوبی اور بین کرنے سے منع کرنا۔
سیدۃ النساء حضرت فاطمہ الزہرؓاکو بھی اپنے شجاع چچا کی مفارقت کا شدید صدمہ ہوا اور وہ ’’واعماہ، واعماہ‘‘ کہہ کر روتی ہوئی بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئیں۔ حضوراقدسؐ نے باچشم پر نم فرمایا۔ ’’بیشک جعفرؓ جیسے شخص پر رونے والوں کو رونا چاہئے۔‘‘
اس کے بعد حضور اقدسؐ نے اپنی لخت جگر سے فرمایا ’’فاطمہ! جعفرؓ کے بچوں کے لئے کھانا تیار کرو، کیونکہ اسماءؓ آج سخت غمزدہ ہیں۔‘‘
تیسرے دن رسول کریمؐ حضرت اسماءؓ کے گھر تشریف لے گئے اور انہیں صبر کی تلقین فرمائی۔
حصرت جعفر طیار ؓ کی شہادت کے چھ ماہ بعد 8 ہجری میں غزوئہ حنین کے زمانے میں رسول کریمؐ نے حضرت اسماءؓ کا نکاح اپنے محبوب رفیق حضرت ابو بکر صدیقؓ سے پڑھا دیا۔ دو برس بعد حضرت ابو بکر صدیقؓ کے صلب سے محمد بن ابی بکرؓ پیدا ہوئے۔
حضرت اسماءؓ حج کیلئے مکہ آئی ہوئی تھیں کہ ذو الحلیفہ میں محمد بن ابی بکرؓ کی ولادت ہوئی۔ حضرت اسمائؓ نے حضورؐ سے دریافت کیا ’’حضور! اب میں کیا کروں، حضورؐ نے فرمایا ’’غسل کر کے احرام باندھ لو۔‘‘
13 ہجری میں حضرت ابو بکر صدیقؓ نے وفات پائی تو وصیت کی کہ اسماءؓ غسل دیں۔ حضرت صدیق اکبرؓ کے بعد حضرت اسماءؓ حضرت علیؓ کے نکاح میں آئیں۔ محمد بن ابی بکرؓ کی عمر اس وقت تقریباً تین برس کی تھی، وہ بھی اپنی ماں کے ساتھ آئے اور حضرت علیؓ کے زیر سایہ ہی پرورش پائی۔
ایک دن عجیب لطیفہ ہوا۔ محمد بن جعفر طیارؓ اور محمد بن ابی بکرؓ اس بات پر جھگڑ پڑے کہ دونوں میں سے کس کا باپ افضل تھا اور کون زیادہ معز ز ہے۔ یہ تکرار کافی دیر جاری رہی۔ حضرت علیؓ نے دونوں بچوں کی دلچسپ بحث سنی تو اسماءؓ سے فرمایا: ’’تم اس جھگڑے کا فیصلہ کرو۔‘‘
حضرت اسماءؓ نے کہا ’’میں نے جوانان عرب میں جعفرؓ سے بہتر کسی کو نہیں پایا اور بوڑھوں میں ابوبکرؓ سے اچھا کسی کو نہ دیکھا۔‘‘ حضرت علیؓ نے مسکرا کر فرمایا: ’’تم نے ہمارے لئے کچھ بھی نہ چھوڑا۔‘‘ حضرت اسماءؓ کے نوخیز فرزند محمد بن ابی بکرؓ مصر میں قتل ہوئے اور ان کے مخالفین نے ان کی لاش بیدردی سے گدھے کی کھال میں جلائی۔ حضرت اسماءؓ نے یہ روح فرسا واقعہ سن کر نہایت صبرو استقامت سے کام لیا اور مصلیٰ بچھا کر عبادت میں مصروف ہوگئیں۔
40 ہجری میں حضرت علی مرتضیٰؓ نے شہادت پائی اور ان جلد ہی بعد حضرت اسماءؓ نے بھی داعی اجل کو لبیک کہا۔
رسول کریمؐ جب مرض وفات میں مبتلا ہوئے تو حضرت اسمائؓ بنت عمیس نے آپؐ کا مرض ذات الجنب تشخیص کیا اور حضرت ام سلمہؓ کے مشورے سے حضورؐ کو دوا پلانی چاہی، حضورؐ دوا پینے کے عادی نہیں تھے، انکار فرمایا۔ اسی اثنا میں آپؐ پر غشی طاری ہوگئی۔ ان دونوں نے دہن مبارک کھول کر دوا پلا دی، تھوڑی دیر میں حضورؐ کی غشی دور ہوئی تو کچھ افاقہ محسوس ہوا۔ فرمایا، یہ تدبیر اسماءؓ نے بتائی ہوگی، وہ حبشہ سے اپنے ساتھ یہی حکمت لائی ہیں۔ حضرت اسماءؓ نے حضورؐ سے براہ راست فیض حاصل کیا۔
آپؐ نے انہیں مصیبت اور تکلیف میں پڑھنے کیلئے ایک دعا بتائی تھی۔ حضرت اسماءؓ تعبیر رویا میں بھی درک رکھتی تھیں۔ حضرت عمرؓ ان سے اکثر خوابوں کی تعبیر لیتے تھے۔ حضرت اسماءؓ کی سات اولادیں ہوئیں۔ حضرت جعفرؓ سے محمدؓ، عبد اللہؓ، عونؓ اور دو لڑکیاں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ سے محمدؓ اور حضرت علیؓ سے یحییٰؓ پیدا ہوئے۔
٭٭٭٭٭