افغان امن مذاکرات میں بھارتی شمولیت کے لئے امریکی کوششیں تیز

امت رپورٹ
افغان طالبان کے ساتھ جاری امن مذاکرات میں بھارت کو شامل کرنے سے متعلق امریکی کوششوں میں تیزی آگئی ہے۔ امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کے چار ملکی دورے کے شیڈول میں بھارت جانا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس سلسلے میں پاکستان کے مؤقف میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ امن مذاکرات میں بھارت کو آن بورڈ لینے سے متعلق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا بیان اسی تبدیلی کی طرف ایک اشارہ تھا۔ تاہم انہوں نے قبل از وقت یہ بات کہہ دی، جس کی وجہ سے دفتر خارجہ کے ترجمان کو اس کی تردید کرنی پڑی۔
یاد رہے کہ افغان طالبان نے قطر میں امریکہ کے ساتھ امن مذاکرات کا طے شدہ چوتھا مرحلہ ملتوی کر دیا ہے۔
یہ دو روزہ مذاکرات بدھ اور جمعرات کو ہونے تھے۔ مذاکرات ملتوی ہونے کے بعد امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد چار ممالک کے دورے پر روانہ ہوئے ہیں۔ ان ممالک میں افغانستان، پاکستان اور چین کے علاوہ حیرت انگیز طور پر بھارت بھی شامل ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اپنے اس چار ملکی دورے کے دوران زلمے خلیل زاد متعلقہ ممالک کی قیادت سے افغان امن عمل پر بات چیت کریں گے۔ دوسری جانب بھارتی آرمی چیف نے کہا ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ پیشگی شرائط کے بغیر امن مذاکرات کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں معروف دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون کا کہنا ہے کہ افغانستان میں قیام امن عمل کے لیے جب اسلام آباد میں چار ممالک امریکہ، افغانستان، پاکستان اور چین کے درمیان مذاکرات ہو رہے تھے تو افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور کو ڈرون سے نشانہ بنایا گیا۔ اس کے نتیجے میں یہ مذاکرات ختم ہو گئے۔ یہ حملہ امریکہ نے بھارت کی ایما پر کرایا تھا۔ اور اس کا سیدھا مطلب تھا کہ اس کی شمولیت کے بغیر کئے جانے والے مذاکرات سبوتاژ ہوتے رہیں گے۔ آصف ہارون کے بقول اس وقت سے ہی دو گروپ بن گئے تھے۔ ایک گروپ امریکہ، کابل حکومت اور بھارت پر مشتمل ہے۔ دوسرے گروپ میں چین، پاکستان اور روس شامل ہیں۔ اب اس وقت سے امریکہ نے اس معاملے میں بھارت کو شامل کر رکھا ہے۔ کابل حکومت کی پہلے سے یہ خواہش ہے کہ بھارت کو امن عمل میں شامل کیا جائے۔ تاہم پاکستان یہ کہتا رہا ہے کہ افغان امن بات چیت میں بھارت کا کوئی رول نہیں۔ کیونکہ نہ اس کی سرحدیں افغانستان کے ساتھ لگتی ہیں، نہ افغانستان اور بھارت کے درمیان مذہبی اور ثقافتی تعلق ہے۔ دوسری جانب امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات میں طالبان نے بھی افغانستان میں بھارتی موجودگی پر اعتراض کیا تھا۔ آصف ہارون کے مطابق یہ صورت حال بھارت کے لیے پریشان کن ہے۔ لہٰذا اب بھارتی خواہش پر ہی امریکہ نے افغان امن مذاکرات میں اسے آن بورڈ کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ٹاسک زلمے خلیل زاد کو سونپ دیا گیا ہے کہ وہ اس کے لیے پاکستان سمیت دیگر ممالک کو بھی آمادہ کرے۔ زلمے خلیل زاد امریکہ اور کابل حکومت کے علاوہ بھارت کا بھی بڑا چہیتا ہے۔ اس سارے معاملے میں اس کی کوششیں بھی شامل ہیں۔ آصف ہارون کا مزید کہنا تھا کہ دراصل امریکی چاہتے ہیں کہ اس کے چلے جانے کے بعد افغانستان کی دیکھ بھال بھارت کرے۔ بالخصوص واشنگٹن نے اربوں ڈالر خرچ کر کے جو ساڑھے تین لاکھ اہلکاروں پر مشتمل افغان نیشنل آرمی تشکیل دی ہے، اس کا خیال رکھا جائے کہ یہ نیشنل آرمی بھی کہیں اسی طرح تتر بتر نہ ہو جائے، جیسے سوویت یونین کے واپس جانے کے بعد ہوئی تھی۔ آصف ہارون کے مطابق انہیں پاکستان کی اس پالیسی سے اتفاق نہیں کہ امریکہ اس وقت تک افغانستان سے واپس نہ جائے جب تک وہاں امن قائم کر کے ایک وسیع البنیاد حکومت نہ بنا دے۔ جب افغانستان کے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر طالبان ہی یہ نہیں چاہتے تو پاکستان کو ایسی بات کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
افغانستان کی صورت حال پر گہری نظر رکھنے والے معروف صحافی رحیم اللہ یوسف زئی کا دعویٰ ہے کہ افغان امن مذاکرات میں بھارتی شمولیت کے حوالے سے پاکستان کی رائے تبدیل ہوئی ہے۔ پاکستان پہلے کہتا تھا کہ افغانستان کے معاملے میں بھارت کا کوئی کردار نہیں اور یہ کہ بھارت، افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ لیکن اب پاکستان کی رائے میں یہ تبدیلی آئی ہے کہ بھارت کو بھی افغان امن مذاکرات میں شامل کیا جانا چاہئے۔ کیونکہ پاکستان کو تشویش ہے کہ اگر بھارت کو اس عمل سے باہر رکھا جاتا ہے تو وہ Spoiler (بگاڑنے والا) بن کر مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرے گا۔ لہٰذا بھارت کا Spoiler والا کردار روکنے کے لیے مذاکرات میں بھارت کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ رحیم اللہ یوسف زئی کے بقول پاکستان نے خود امریکہ سے کہا ہے کہ وہ امن مذاکرات کے حوالے سے بھارت کے ساتھ بات کرے اور اس کو بھی آن بورڈ لیا جائے۔ بھارت اس عمل میں اس لیے شامل ہونا چاہتا ہے کہ اسے بھی خدشہ ہے کہ طالبان دوبارہ کابل حکومت میں آگئے تو پاکستان کی اہمیت پھر بڑھ جائے گی اور افغانستان سے اس کا کردار ختم ہو جائے گا۔ مذاکرات ملتوی کئے جانے کے حوالے سے رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ ’’امریکی افغان طالبان سے کہہ رہے ہیں کہ ہم نے آپ سے کافی مذاکرات کر لیے ہیں، اب اس عمل میں کابل حکومت کو بھی شامل کیا جائے۔ تاہم طالبان کا کہنا ہے کہ ابھی یہ وقت نہیں آیا، پہلے ہم آپ سے فوجی انخلا کا معاملہ طے کر لیں تو پھر کابل حکومت سے بھی بات کر لیں گے‘‘۔ رحیم اللہ یوسف زئی کے بقول امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں ڈیڈلاک آیا ہے، لیکن بات چیت ختم نہیں ہوئی۔ یہ سلسلہ ابھی چلے گا۔ زلمے خلیل زاد چار ممالک کے دورے پر نکلے ہیں۔ ان چاروں ممالک کی قیادت سے مشورہ کر کے وہ متوقع طور پر رواں ماہ کے اواخر تک دوبارہ طالبان کے پاس جائیں گے۔ جس کے بعد ملتوی شدہ مذاکرات کی اگلی تاریخ کا اعلان ہو سکتا ہے۔ رحیم اللہ یوسف زئی کے مطابق زلمے خلیل زاد کے چار ملکی دورے کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ طالبان کو کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ کرنے کے لیے ان ممالک کے ذریعے مزید دبائو بڑھایا جائے۔ اس کے لیے پاکستان سے بھی بار بار کہا جا رہا ہے۔ جس پر پاکستان نے کافی زور لگایا ہے۔ پاکستان کے شدید دبائو سے یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ کہیں افغان طالبان اور پاکستان کے تعلقات خراب نہ ہو جائیں۔ دراصل طالبان کا موقف ہے کہ انہوں نے اتنی طویل جنگ لڑی ہے۔ اور اب کامیابی ملنے پر امریکہ ان سے مذاکرات پر مجبور ہوا ہے۔ ایسے میں وہ اپنے موقف کو کیوں تبدیل کریں۔ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کا معاملہ امریکہ کے ہاتھ میں ہے، کابل حکومت کے بس میں نہیں۔ لہٰذا طالبان کا کہنا ہے کہ پہلے امریکی فوج کے جانے کے سلسلے میں کوئی معاہدہ ہو جائے تو پھر کابل حکومت سے بھی مذاکرات کر لیں گے۔ رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ ’’میری معلومات کے مطابق اس وقت دو باتیں ہو رہی ہیں۔ اول یہ کہ امریکی چاہتے ہیں کہ طالبان، کابل حکومت سے براہ راست مذاکرات کریں یا پھر جاری مذاکراتی عمل میں کابل حکومت کو شامل کیا جائے۔ دوئم یہ کہ طالبان فائر بندی کر دیں۔ لیکن طالبان یہ دونوں باتیں نہیں مان رہے اور فی الحال یہی ایشو مذاکرات میں ڈیڈلاک کا سبب بنا ہوا ہے۔‘‘ رحیم اللہ یوسف زئی کا یہ بھی کہنا تھا کہ خلیجی ممالک کے درمیان چپقلش کے نتیجے میں افغان امن مذاکرات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ایک طرف ہیں جبکہ قطر دوسری طرف کھڑا ہے۔ طالبان نے چونکہ 2010ء سے قطر میں اپنا سیاسی دفتر کھول رکھا ہے اور قطر نے طالبان کا خیال رکھنے کے علاوہ انہیں بہت سپورٹ بھی کیا ہے۔ لہٰذا طالبان چاہتے ہیں کہ قطر میں ہی ان کا سیاسی دفتر قائم رہے اور وہیں پر سارے مذاکرات ہوں۔ جبکہ سعودی اور متحدہ عرب امارات سمجھتے ہیں کہ ان کے مقابلے میں قطر ایک چھوٹا ملک ہونے کے باوجود اتنی اہمیت کیسے اختیار کر گیا ہے؟ دونوں ممالک کی خواہش ہے کہ طالبان کے معاملات ان کے ذریعے حل ہوں اور اس کا کریڈٹ قطر کو نہ ملے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات طالبان کو اپنے ہاں دفتر کھولنے کی پیشکش کر چکے ہیں۔ اسی نوعیت کی آفرز ترکی، ترکمانستان اور دیگر کئی ممالک نے بھی طالبان کو کی ہے۔ اس سے قبل طالبان کو کوئی پوچھتا نہیں تھا، تاہم اب یہ سارے میزبان بننا چاہتے ہیں۔ جبکہ طالبان ان تمام ممالک کو نظرانداز کر کے قطر کو اہمیت دے رہے ہیں، جو پچھلے 18 برس سے ان کی سفارتی اور دیگر معاملات میں سپورٹ کر رہا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment