قمرزمانی نے دلگیر کو بریلی بلاکربھی دیدار سے محروم رکھا

ترتیب و پیشکش / ڈاکٹر فرمان فتحپوری
دلگیر نے لکھنئو سے بریلی پہنچتے ہی قمر زمانی بیگم کو خط میں لکھا:
2 جنوری 1917ء
چھانتا ہوں کو بکو کی خاک اس امید میں
کوئی ہنس دیتا میرا حال پریشان دیکھ کر
حضور!
وطن چھوڑا، لکھنئو آیا، لکھنئو سے ٹھوکریں کھاتے کھاتے یہاں تک پہنچ گیا ہوں۔
آگے تقدیر کی رسائی ہے
ہائے، آپ نے یہ کیا ستم کیا کہ میرے دونوں خطوں کو اب تک لاجواب رکھا، لیکن…
قیامت کی کشش ہے تیرے انداز تغافل میں
دل ناکام ہے محو ادائے بے رخی اب تک
آپ کی تلاش یہاں تک لے آئی ہے۔
ملے گا کھوج نہ کب تک یہ دیکھنا ہے ہمیں
ہم اپنی جان لڑا دیں گے جستجو کے لیے
میرے حاضر ہونے کی کیا غرض ہے آہ بس یہ…
تمہیں دکھانے کو لایا ہوں چاک پیراہن
تمہارا تار نظر چاہئے رفو کے لیے
اگر ممکن ہو اور جی بھی چاہے تو صرف اتنی تمنا ہے…
کبھی تو سامنے آجائو نقش آرزو بن کر
کبھی تو امتحان خوبی تقدیر ہو جائے
اگر ایسا کر سکو تو…
تصدق تم پہ جان عاشق دلگیر ہو جائے
میں اس خط کے جواب کے انتظار میں یہاں 4 جنوری تک ٹھہرا ہوں۔ اس پتے سے فوراً جواب دیجئے۔
’’بریلی عقب کوتوالی برمکان سید واجد حسین انسپکٹر پولیس پنشنر‘‘۔
آج دس بجے دن کو صادق حسین صاحب سے ملنے حاضر ہوں گا۔ خدا کرے میرے آنے کی اطلاع آپ کو فوراً ہو جائے اور میں آپ کے نازک ہاتھوں کا بنایا ہوا پان کھا سکوں۔
کل 3 جنوری کو دس بجے دن کے پھر حاضر ہوں گا اور اس وقت میرے آنے کی اطلاع آپ کو اس خط کے ذریعے ہو چکی ہو گی۔ اپنے ہاتھوں دلگیر ہاتھوں کے بنائے ہوئے پان ضرور کھلا دیجئے گا۔ یاد رکھئے:
پرسوں 4 جنوری کو بھی اسی وقت حاضری دوں گا اور خط کا جواب اس روز تک نہ ملا (خدا ایسا نہ کرے) تو دل شکستہ و مایوس وطن واپس چلا جائوں گا… مگر… اتنا خیال رکھئے کہ وہاں اس طرح ناکام و مراد پہنچ کر زندہ نہ رہ سکوں گا…
ٹکڑے ہوں گے بس جگر کے گھر کو ویران دیکھ کر
ہاں خوب یاد آیا۔ اگر ممکن ہو تو اس کا جواب کسی معتبر آدمی کے ہاتھ (دستی) بھیج دیجئے کہ جلد مل جائے۔ ورنہ خود بذریعہ ڈاک ارسال فرما کر بلا لیجئے۔
کاش آنکھوں نے جو خواب دلی میں دیکھا تھا، اس کی تعبیر بریلی میں ملے، آمین…
دیکھئے آتی ہے وہ کون مبارک ساعت
آپ دیکھیں گے ہمیں آپ کو ہم دیکھیں گے
اس تمنا کے ساتھ آنے والاآپ کا’’دل‘‘قمر زمانی نے دلگیر کے اس خط کا جواب نہ دیا، پھر بھی دلگیر اپنے پروگرام کے مطابق دوسرے دن، یار کی آستان بوسی کے لیے حاضر ہوئے، لیکن قمر زمانی بیگم سے ملاقات نہ ہوئی۔ ناچار واپس ہو کر قمر زمانی کے نام ایک اور خط ڈالا:
بریلی 3 جنوری 1917ءخسرو غریب است و گدا، افتادہ در شہر شماباشد کہ ازبہر خدا سوئے غریباں بنگرمیبندہ نواز۔
کل یہاں پہنچ کر مفصل خط لکھ چکا ہوں۔ یقین ہے کہ ملا ہوگا۔ خط لکھنے کے بعد در دولت پر حاضر ہوا اور آستان بوسی کے بعد واپس آیا۔ صبح بھی گیا تھا اور کئی گھنٹے بیٹھنے کے بعد ابھی ابھی جائے قیام پر واپس آیا ہوں۔ اس وقت جو دل کی حالت ہے کیا عرض کروں:
آئے ہیں ہوش کھو کے تیری جلوہ گاہ سے
ہائے اس طرح جانے سے تو نہ جاتے تو اچھا تھا۔
حضور یار گئے بھی تو کیا ہوا حسرت
سلام کر نہ سکے ہم سوال ہو نہ سکا
آج ہاں آج پورا یقین تھا کہ خط کا جواب مجھے مل جائے گا، لیکن نہ ملا۔ اب کہ چار بج چکے ہیں اور تیسری ڈلیوری کا بھی وقت نکل گیا۔ میں جواب ملنے سے مایوس ہوں، آہ، کیا یہی شرط وفا ہے۔
براہ کرم اس خط کو ملاحظہ فرماتے ہی فوراً جواب لکھئے کہ کل شام تک مجھ کو مل جائے اور دل پر جو کوفت اور صدمہ ہے وہ دور ہو۔
خدانخواستہ اگر کل بھی جواب اور خطوط کی رسید نہ ملی تو میں تباہ ہو جائوں گا اور شاید میری تباہی ابھی آپ کو منظور نہ ہو۔
بہر تقدیر کل رات تک جواب کا انتظار کر کے واپس چلا جائوں گا اور یہ کون کہہ سکتا ہے کہ گھر زندہ پہنچوں گا۔
کل 4 جنوری کو 12 بجے دن کو آخری مرتبہ حاضر ہو کر اس چوکھٹ کو چوموں گا۔
آہ، بڑی حسرت یہ ہے کہ آپ کا کوئی زبانی پیغام بھی نہ ملا۔ جس کی آپ سے پوری توقع تھی، کیا جس کو ’’دل دیا کرتے ہیں‘‘ اس کو بھول بھی جاتے ہیں۔
ظالم یہ محبت کا تو دستور نہیں
اور کیا لکھوں، بخدا دل بھر آتا ہے…
تم پر فدا ہو جانے والا
حسرت نصیب
’’دل‘‘
قمر زمانی اس پر بھی خاموش رہیں۔ دلگیر بریلی سے دل گرفتہ واپس ہوئے، لیکن روانہ ہونے سے پہلے ایک مختصر سا خط بریلی ہی سے اور لکھا:
4 جنوری 1917ء
کیا ہی دلگیر چلے ہیں دل مہجور سے ہم
آئے تھے تیری زیارت کو بہت دور سے ہم
بے تابی سے تمام دن انتظار میں گزرا۔ پھر بھی آپ کا خط نہ ملا…
’’تھک تھک کے گر پڑی نگہہ انتظار آج‘‘
لو مایوس جاتے ہیں خدا حافظ، پھر نہ آئیں گے۔
اچھا رخصت اور… ہمیشہ کے لیے
چلتے وقت فقیروں کی یہ دعا قبول فرمایئے…
سلامت رہے نوجوانی کسی کی
بلا سے نہ ہو زندگی کسی کی
دنیا سے جانے والا
’’بدنصیب‘‘ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment