گیس لائن دھماکے کی تفتیش پر تنازعہ کھڑا ہوگیا

نجم الحسن عارف
ضلع رحیم یار خان پولیس اور سوئی ناردرن کمپنی میں گیس پائپ لائن دھماکے پر تفتیش میں تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ پولیس اور دوسرے تفتیشی حکام نے اسے ایک اتفاقی حادثہ قرار دے رہے ہیں۔ جبکہ سوئی ناردرن کمپنی حکام کا اسے دہشت گردی کا واقعہ قرار دینے پر اصرار ہے۔ بہاولپور میں ایس این جی پی ایل کے حکام نے ’’امت‘‘ سے غیر رسمی بات چیت میں کہا کہ اگر دہشت گردی ہو تو پائپ باہر سے اندر کی طرف ’’ہٹ‘‘ ہوکر پھٹے گا۔ اور یہ پائپ اندر کی طرف کو مڑا ہے۔ اگر پولیس کے مؤقف کے مطابق یہ محض حادثہ ہوتا تو یہ پائپ پھٹنے پر اس کا ’’کالر‘‘ باہر کی طرف بنتا، جو نہیں بنا۔ اس لیے یہ ایک حادثہ یا تکنیکی مسئلہ نہیں، بلکہ دہشت گردانہ کارروائی کا شاخسانہ ہے۔ دوسری جانب پولیس کے مقامی حکام کا ’’امت‘‘ کے ساتھ بات کرتے ہوئے موقف تھا کہ کسی عام فرد کو اندازہ نہیں کہ زیر زمین گیس پائپ لائن کہاں سے گزر رہی ہے۔ اس کے لیے ایک جانب دہشت گردوں کی پائپوں کے زیر زمین نقشے تک رسائی ضروری ہے، وہیں دہشت گردی کے لیے زمین کو آس پاس سے کھدا ہوا ہونا چاہئے تھا۔ مگر زمین پر قرب و جوار میں ایسی کوئی علامت سامنے نہیں آئی، جس سے یہ کہا جا سکے کہ کسی دہشت گرد نے چھ ساڑھے چھ فٹ تک زمین کے نیچے گیس پائپ لائن تک پہنچنے کے لیے ایک گڑھا یا سرنگ کھودی۔
واضح رہے کہ منگل کے روز علی الصبح تھانہ بھونگ سے چند سو گز کے فاصلے پر زرعی اراضی کے بیچوں کے بیچ گزرنے والی گیس پائپ سے اچانک غیر معمولی طور پر بلند شعلے بھڑکتے ہوئے نظر آئے۔ عینی شاہدین کے مطابق یہ ایک طرح سے آگ کا آتش فشاں تھا، جو ساٹھ سے ستّر فٹ تک اونچا دیکھا جا سکتا تھا۔ گیس کے دبائو کی وجہ سے شعلے انتہائی بلند تھے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق پائپ لائن کو جہاں دھماکے سے اڑایا گیا ہے، اس کے قریب ترین رینجرز کی چوکی بھی موجود ہے۔ جبکہ خود ایس این جی پی ایل کا کمپریسر سینٹر بھی قریب ہی واقع ہے۔ اسی وجہ سے جیسے ہی آگ کے شعلے بلند ہوئے، سوئی ناردرن کمپنی کے قریبی مرکز سے گیس کی سپلائی روک دی گئی، جس کی وجہ سے ایک بڑی تباہی جو پائپ لائن کے ساتھ ساتھ شہروں اور قصبوں تک پھیل سکتی تھی، اسے روک لیا گیا اور تقریباً چار گھنٹے کی جدوجہد کے بعد آگ کا پھیلائو کم ہوتا چلا گیا، صرف چند ایکڑ پر پھیلی گنے کی فصل متاثر ہوئی۔ بلکہ اس کے متاثر ہونے کی وجہ گرمی کی شدت بنی، جس سے کماد کا کھیت مکمل طور پر جھلس گیا تھا۔ ذرائع کے بقول منگل سے جمعرات کے دوران مقامی انتظامیہ کے اعلیٰ حکام اور تفتیشی ٹیم نے تین مرتبہ دورہ کیا اور اس واقعے کا مختلف پہلوئوں سے جائزہ لیا۔ پولیس کے مقامی تھانے کے انچارج امجد رشید کے مطابق تفتیشی ٹیم میں سب سے اہم ’’ان پٹ‘‘ فارنسک ٹیم کا ہو گا۔ جس نے موقع کا معائنہ کیا ہے۔ لیکن ابھی فارنسک رپورٹ آنا باقی ہے۔ جہاں تک پولیس اور دوسرے اداروں کی ابتدائی تحقیقات کا تعلق ہے، اس میں صاف طور پر یہ ایک حادثہ نظر آتا ہے کہ پائپ میں لیکیج ہوئی اور گیس کے دبائو سے باہر نکلنے کی وجہ سے آگ بھڑک اٹھی۔ تھانہ انچارج کے بقول آگ نے زمین کو پھاڑ کر باہر آسمان کی طرف راستہ بنایا، اور دیکھتے ہی دیکھتے ساٹھ سے ستر فٹ بلندی کو شعلے چھونے لگے۔
خیال رہے کہ اہم بات یہ ہے کہ ابھی تک کسی ذریعے نے اس واقعے کے ساتھ کسی دھماکے کی آواز سننے کا حوالہ نہیں دیا۔ غالباً اس کی ایک وجہ اس جائے آتش کا آبادی سے دور ہونا ہے۔ پولیس ذرائع کا دعویٰ ہے کہ آٹھ سے نو کلو میٹر دور سے بھی آگ کے شعلے دیکھے جا سکتے تھے۔ اگر یہ درست ہے تو پھر اس کے دھماکے کی آواز کی بھی سنائی دینے کی گواہی سامنے آنی چاہئے تھی۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق موقع پر اب تک ایس این جی پی ایل کی اپنی ٹیموں کے وزٹ کے علاوہ پولیس، مقامی انتظامیہ کے حکام، بم ڈسپوزل ٹیم، سی ٹی ڈی کے حکام اور آئی بی کی ٹیمیں آچکی ہیں۔ ایس این جی پی ایل کے حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یقیناً ابتدائی رپورٹ اب تک ہیڈ کوارٹر بھجوائی جا چکی ہے۔ کیونکہ جمعرات کے روز تک پائپ لائن کی مرمت مکمل کرنے کے بعد گیس کی سپلائی بھی بحال کر دی گئی ہے۔ تاہم لاہور میں ایس این جی پی ایل کے ترجمان نے اس بارے میں جمعرات کی شام تک لاعلمی ظاہر کی۔
ادھر اس واقعے کی تفتیش کو پولیس کی طرف سے دیکھنے والی ٹیم کے سربراہ اے ایس پی حفیظ نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے دو ٹوک انداز میں کہا کہ یہ ایک حادثہ ہے، جو تکنیکی وجوہ کی بنیاد پر پیش آیا۔ لیکن ایس این جی پی ایل اسے دھماکے کی طرف لے جانے کی کوشش میں ہے۔ انہوں نے کہا، حادثے سے تھوڑے سے فاصلے پر رینجرز کی چوکی بھی ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ صرف دو سو میٹر کے فاصلے پر بیٹھے رینجرز کے باوجود دہشت گرد یہاں ٹائم ڈیوائس نصب کرنے کے لیے آسانی سے گڑھا کھودنے میں کامیاب ہوئے۔ اے ایس پی حفیظ کے مطابق جس پائپ لائن سے آگ کے شعلے نکلے، اس میں صرف پانچ چھ انچ کا ایک سوراخ بنا ہے۔ اگر یہ دھماکہ ہوتا تو یقیناً اتنا چھوٹا سوراخ تو نہ بنتا۔ ایک سوال کے جواب میں اے ایس پی حفیظ نے کہا ’’فارنسک لیبارٹری کی رپورٹ کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ یہ رپورٹ کب آئے گی۔ البتہ مجھے یہ معلوم ہے کہ پولیس، سی ٹی ڈی، انٹیلی جنس بیورو کی ٹیموں نے وزٹ کیا ہے اور اب تک کا حاصل یہی ہے کہ یہ ایک حادثہ تھا‘‘۔ ادھر ایس این جی پی ایل لاہور کے ترجمان نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے اس بارے میں بھی کچھ کہنے سے معذرت کی ہے۔ نہ ہی یہ بتایا کہ اس واقعے سے مجموعی طور پر کتنا نقصان ہوا۔ ترجمان کے بقول یہ واقعہ 30 انچ قطر کی پائپ لائن پر پیش آیا، جبکہ اس کے علاوہ ایس این جی پی ایل کی 42 انچ قطر، 43 فٹ قطر اور 48 انچ قطر کی پائپ لائنیں بھی ہیں، جو یقیناً اس سے بڑی ہیں۔ یہ مقابلتاً کم قطر کی پائپ لائن ہے۔ خیال رہے کہ اس واقعے کے نتیجے میں فوری طور پر سرگودھا، فیصل آباد، ملتان اور گوجرانوالہ میں صنعتی اداروں کو گیس کی فراہمی بند ہو گئی تھی۔ علاوہ ازیں گھریلو صارفین بھی متاثر ہوئے۔ تاہم اب ایس این جی پی ایل کا کہنا ہے کہ پائپ لائن کی مرمت کر دی گئی ہے اور سپلائی بحال کی جارہی ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment