یہ انبیا علیہم السلام والے فیصلے ہیں

امام شعبیؒ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰؓ بازار تشریف لے گئے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک نصرانی زرہ بیچ رہا ہے۔ حضرت علیؓ نے اس زرہ کو پہچان لیا اور فرمایا: یہ زرہ میری ہے۔ چلو میرے اور تمہارے درمیان مسلمانوں کا قاضی فیصلہ کرے گا۔ ان دنوں مسلمانوں کے قاضی حضرت شریحؒ تھے۔ حضرت علیؓ نے ہی ان کو قاضی بنایا تھا۔
جب قاضی شریحؒ نے امیر المومنینؓ کو دیکھا تو اپنی مجلس سے کھڑے ہوگئے اور حضرت علیؓ کو اپنی جگہ بٹھایا اور خود ان کے سامنے اس نصرانی کے پہلو میں بیٹھ گئے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا: اے شریح! اگر میرا فریق مخالف مسلمان ہوتا تو میں اس کے ساتھ بیٹھتا، لیکن میں نے حضور اقدسؐ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ان (غیر مسلم ذمیوں) سے مصافحہ نہ کرو اور ان کو سلام کرنے میں پہل نہ کرو، ان کی نماز جنازہ نہ پڑھو اور ان کو راستہ کے تنگ حصے میں چلنے پر مجبور کرو، انہیں چھوٹا بنا کر رکھو، جیسے کہ خدا نے انہیں چھوٹا بنایا ہے۔ اے شریح! میرے اور اس کے درمیان فیصلہ کرو۔
حضرت شریحؒ نے کہا: اے امیر المومنین! آپ کیا کہتے ہیں؟ حضرت علیؓ نے کہا: یہ زرہ میری ہے، کافی عرصے پہلے یہ کہیں گر گئی تھی۔ حضرت شریحؒ نے کہا: اے نصرانی! تم کیا کہتے ہو؟ اس نے کہا میں یہ نہیں کہتا کہ امیر المومنینؓ غلط کہہ رہے ہیں، لیکن یہ زرہ ہے میری۔ حضرت شریحؒ نے سیدنا علیؓ سے کہا میرا فیصلہ یہ ہے کہ یہ زرہ اس سے نہیں لی جا سکتی، کیونکہ آپ کے پاس کوئی گواہ نہیں۔
حضرت علیؓ نے کہا: قاضی شریح نے ٹھیک فیصلہ کیا ہے۔ اس پر نصرانی نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ انبیاء والے فیصلے ہیں کہ امیر المومنین! خدا کی قسم! یہ زرہ آپ کی ہے۔ آپ کے پیچھے میں چل رہا تھا، آپ کے خاکی رنگ کے اونٹ سے گری تھی، جسے میں نے اٹھا لیا تھا اور پھر اس نصرانی نے کلمہ شہادت پڑھا۔ اس پر حضرت علیؓ نے کہا جب تم مسلمان ہو ہی گئے تو اب یہ زرہ تمہاری ہی ہے اور اسے ایک گھوڑا بھی دیا۔ (ترمذی)
امام حاکمؒ کی ایک روایت میں یہ ہے کہ جنگ جمل کے دن حضرت علیؓ کی ایک زرہ گم ہوگئی تھی۔ ایک آدمی کو ملی، اس نے آگے بیچ دی۔ حضرت علیؓ نے اس زرہ کو ایک یہودی کے پاس دیکھ کر پہچان لیا۔ قاضی شریحؒ کے یہاں اس یہودی پر مقدمہ دائر کیا۔ حضرت حسنؓ اور حضرت علیؓ کے آزاد کردہ غلام قنبر نے حضرت علیؓ کے حق میں گواہی دی۔
قاضی شریحؒ نے کہا: حضرت حسنؓ کی جگہ کوئی اور گواہ لائو۔ حضرت علیؓ نے کہا: کیا آپ حضرت حسنؓ کی گواہی کو قبول نہیں کرتے؟ انہوں نے کہا نہیں، بلکہ آپ سے ہی سنی ہوئی یہ بات یاد ہے کہ باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی درست نہیں ہے۔
حضرت یزید تیمیؒ نے اس حدیث کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اس میں یہ مضمون ہے کہ قاضی شریحؒ نے حضرت علیؓ سے کہا کہ آپ کے غلام کی گواہی تو ہم مانتے ہیں، لیکن آپ کے حق میں آپ کے بیٹے کی گواہی نہیں مانتے۔ اس پر حضرت علیؓ نے کہا کیا تم نے حضرت عمرؓ کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا کہ رسول اقدسؐ نے یہ فرمایا کہ حسنؓ اور حسینؓ جنت کے جوانوں کے سردار ہیں اور پھر حضرت علیؓ نے اس یہودی سے کہا یہ زرہ تم ہی لے جائو۔ اس یہودی نے کہا کہ تمام مسلمانوں کا امیر میرے ساتھ مسلمانوں کے قاضی کے پاس آیا اور قاضی نے اس کے خلاف فیصلہ کردیا اور مسلمانوں کا امیر اس فیصلے پر راضی بھی ہوگیا۔ (یہ منظر دیکھ کر وہ اتنا متاثر ہوا کہ اس نے فوراً کہا) اے امیر المومنین! خدا کی قسم! آپ نے ٹھیک کہا تھا، یہ زرہ آپ ہی کی ہے، آپ کے اونٹ سے گری تھی، جسے میں نے اٹھا لیا تھا اور پھر اس نے کلمہ شہادت پڑھا۔ حضرت علیؓ نے وہ زرہ اسے ہدیہ میں دے دی اور مزید سات سو درہم بھی دیئے اور پھر وہ مسلمان ہو کر حضرت علیؓ کے ساتھ ہی رہا کرتا تھا، حتیٰ کہ ان ہی کے ساتھ شہید ہوگیا۔ (حاکم، کنز العمال)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment