ڈاکٹر غلام جیلانی برق مرحومؒ نے یہ عبرت ناک سچا واقعہ بیان کیا ہے:
گڑھی (ضلع اٹک کے قصبہ بسال کے قریب ایک گائوں) سے تقریباً ایک میل کے فاصلے پر مشرق کی جانب ایک چھوٹا سا گائوں ڈھوک گدڑاں کے نام سے مشہور ہے۔ وہاں کے نمبردار سمندر خان کے تین بیٹے تھے، بڑے کا نام کرم خاں اور سب سے چھوٹے کا اکبر خاں تھا۔ اکبر خاں نہایت خوبصورت نوجوان تھا، والد کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور ساری بستی کا لاڈلا، لیکن حالت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ اس کی بیوی سیاہ رنگ کی بھدی سی عورت تھی۔ اکبر اسے پسند نہیں کرتا تھا اور عموماً گھر سے باہر رہتا تھا۔
بیوی کو شک گزرا کہ اکبر خاں نے کسی دوسری عورت سے تعلق استوار کرلیا ہے، اس لیے گھر سے غیر حاضر رہتا ہے۔ اس نے اپنے باپ سے شکایت کی اور باپ نے اکبر خاں کے بڑے بھائی کرم خاں سے گٹھ جوڑ کیا۔ طے پایا کہ جس رات اکبر خاں گھر پر ہوگا، اسے قتل کر دیا جائے گا۔
چنانچہ ایک رات جب کہ اکبر خاں اپنے گھر پر سو رہا تھا، اس کی بیوی، سسر اور بڑے بھائی کرم خاں نے مل کر اسے بے رحمی سے قتل کر دیا۔ کرم خاں اس لالچ میں اس گھنائونی سازش میں شامل ہوا تھا کہ اکبر خاں راستے سے ہٹ گیا تو اسے باپ کی وسیع زرعی زمین میں سے زیادہ حصہ مل جائے گا۔
بہرحال ان تینوں نے مل کر اکبر خاں کو ہلاک کیا اور لاش آبادی سے دور ویران کنویں میں پھینک دی۔ بیوی نے خون آلود فروش پر پلستر پھیر دیا اور خون آلود بستر اور چادریں جلا دی گئیں۔ پولیس نے بڑا زور مارا، مگر قاتلوں کا سراغ نہ مل سکا۔
ڈاکٹر صاحب نے اس واقعہ کے بعد کے حالات اس طرح قلم بند کیے ہیں:
آج سے چند سال پہلے مجھے کراچی جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں ایک فوجی افسر کے ہاں ٹھہرا۔ اس کا اردلی ٹھیٹھ اٹکی زبان میں باتیں کرتا تھا۔ میں نے اس کا حسب نسب پوچھا تو کہنے لگا: میں ڈھوک گدڑاں کا رہنے والا ہوں۔ میرا دادا قتل ہو گیا تھا۔ اس کا نام اکبر خاں تھا۔ اسے اس کے سسر اور بڑے بھائی کرم خاں نے قتل کیا تھا۔
میں نے پوچھا کیا کرم خاں زندہ ہے؟ کہا کہ نہیں، وہ مر چکا ہے۔ اس کے آخری چالیس سال انتہائی بری حالت میں گزرے تھے۔ زمین جائیداد اس کا سب کچھ غارت ہو گیا تھا۔ اس کے تین جوان بیٹے اس کی نظروں کے سامنے موت کے گھاٹ اتر گئے تھے۔ وہ نابینا ہو گیا تھا اور اس کے آخری بیس سال مسجد کے دروازے پر بھیک مانگتے ہوئے گزرے تھے۔ (مکافات عمل)
٭٭٭٭٭