سرفروش

عباس ثاقب
شکتی کا لہجہ اعتماد سے بھرپور تھا، اس کے باوجود یشونت یعنی ظہیر نے اسے مخاطب کرکے کہا۔ ’’وہ تو ٹھیک ہے شکتی جی، لیکن پھر بھی اگر ایمونیشن میں کچھ گولیوں اورکارتوسوں کے نمونے دکھادیں تو کنور جی کو اطمینان ہوجائے گا۔ یہ تو آپ کو انہوں نے بتا ہی دیا ہے کہ یہ ان کی آن کا سوال ہے‘‘۔
میں نے ظہیر کی تائید کی۔ ’’اچھا ایسا کریں، صرف بارہ بور کے دس بیس کارتوس لاکر جانچ کرادیں۔ ان کے سیلن زدہ ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ مجھے امید ہے آپ برا نہیں مانیں گے‘‘۔
اس کے چہرے سے ظاہر تھا کہ اس مطالبے پر وہ جزبز ہے، لیکن اس نے نہایت صفائی سے اپنی دلی کیفیت چھپاتے ہوئے خاصے پُرجوش لہجے میں کہا۔ ’’ہاں جی، کیوں نہیں۔ بس چند منٹ انتظار کریں، میں ابھی لاکر آپ لوگوں کو دکھاتا ہوں‘‘۔
میں نے اس کی بات سن کر ستائش بھرے انداز میں گردن ہلائی۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور مکان کے اندرونی حصے میں کہیں چلا گیا۔ تبھی ظہیر نے عجلت بھرے لہجے میں مجھے مخاطب کیا۔ ’’آپ اجازت دیں تو میں اس کے پیچھے جاکر پتا کروں کہ اس نے ایمونیشن کہاں چھپا رکھا ہے؟‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’نہیں یار، اتنا تو پتا چل گیا کہ اسی گھر کے اندر ہے، بس کافی ہے۔ ہمیں مانک والی کہانی یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ خوامخواہ کا خطرہ مول لینے سے کام بگڑ سکتا ہے۔ بہت بڑا مقصد ہمارے سامنے ہے۔ ہمیں پیسے بچانے کا لالچ نہیں کرنا چاہیے‘‘۔
ظہیر نے نیم دلی سے کہا۔ ’’اگر آپ کی یہی رائے ہے تو ٹھیک ہے۔ ورنہ بچائی ہوئی یہ رقم ہمارے بہت کام آسکتی ہے‘‘۔
میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔ ’’بھائی یہ مت بھولو کہ پہلے ہی سارے پنجاب میں ہماری ڈھنڈیا پٹی ہوئی ہے۔ اگر کسی غلطی یا حادثے کے نتیجے میں پولیس کے ہتھے چڑھ گئے تو نہ صرف جان کے لالے پڑ جائیں گے، بلکہ تمہاری آزادی کی جنگ بھی ادھوری رہ جائے گی۔ پیسوں کا کیا ہے؟ محفوظ طریقوں سے مزید حاصل کرلیں گے‘‘۔
مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ میری بات ظہیر کی سمجھ میں آگئی ہے۔ وہ مطمئن ہوکر بولا۔ ’’اس نے جو ایمونیشن بتایا ہے، وہ سارے کا سارا ہمارے لیے بہت کارآمد ہے۔ مقدار بھی بہت کافی ہے۔ لیکن پتا نہیں یہ نمونہ کتنی رقم مانگے گا۔ کہیں ضرورت سے زیادہ ہی منہ نہ کھول دے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’میں نے اندازہ لگایا ہے کہ یہ لالچی تو ضرور ہے، لیکن سمجھ دار بھی ہے۔ یہ ہمارے ضرورت مند ہونے کا فائدہ تو ضرور اٹھائے گا، لیکن …‘‘۔
میری بات شکتی ببر کے آنے سے ادھوری رہ گئی۔ اس نے کپڑے کا ایک تھیلا اٹھا رکھا تھا، جو اس نے میرے پاس سیٹھی پر الٹ دیا۔ اگلے ہی لمحے بارہ بور کے بیس بائیس کارتوس میرے سامنے بکھر گئے۔ میں نے انہیں باری باری اٹھاکر گہری نظروں سے جائزہ لینا شروع کیا۔ ظہیر بھی میرے پاس آکر بیٹھ گیا تھا اور کارتوس اٹھاکر باریک بینی سے انہیں دیکھ رہا تھا۔
میں نے دیکھا کہ وہ کارتوس رائل آرڈیننس فیکٹری، سمرسٹ، برطانیہ عظمیٰ کے تیار کردہ ہیں۔ جیسا کہ شکتی ببر نے دعویٰ کیا تھا، وہ صحیح سالم، بلکہ لگ بھگ نئی جیسی حالت میں تھے۔ ان کے سرخ رنگ کے خول پر خراشیں تک دکھائی نہیں دے رہی تھیں اور نمی اثر انداز ہونے کے بھی کوئی آثار نہیں تھے۔ میں مطمئن ہوگیا۔ مجھے ظہیر کے چہرے پر بھی ستائش کی جھلک دکھائی دی۔ میں نے اس کی خاموش منظوری ملنے پر شکتی کو کارتوس دوبارہ تھیلے میں ڈالنے کا اشارہ کیا۔
وہ گھاگ آدمی ہماری دلی کیفیت بھانپ چکا تھا۔ اس نے باری باری ہم دونوں پر فخر آمیز نظر ڈالی اور کہا۔ ’’سرکار، اگر اب بھی آپ کے من میں کوئی چنتا ہے تو میں اپنی بندوق سے دو چار گولیاں چلاکر دکھاکر آپ کو اور زیادہ سنتشت (مطمئن) کر سکتا ہوں‘‘۔
میں اسے منع کرنے ہی والا تھا کہ ظہیر مجھ سے پہلے بول پڑا۔ ’’ایسا کر کے دکھا دو تو مزا آجائے گا شکتی جی۔ میں خود ٹیسٹنگ کروں گا‘‘۔
میں نے ظہیر کی تائید کی۔ ’’او یار میں نے کیا بندوق کو ہاتھ لگانے کا برت رکھا ہوا ہے۔ میں بھی جانچ کروں گا‘‘۔ پھر میں شکتی سے مخاطب ہوا۔ ’’فکر نہ کرو، یشونت اور میں جتنے بھی فائر کریں گے، میں ان تمام چلے ہوئے کارتوسوں کے دام بھی تمہیں ادا کروں گا۔ بلکہ اگر اسٹین گن اور پکی رائفل کی گولیوں کی جانچ کا بھی بندوبست کر دو تو میرا دل خوش ہوجائے گا‘‘۔
میں نے دیکھا میری بات سن کر ظہیر کا چہرہ خوشی سے کھِل اٹھا ہے۔ میں نے شاید اس کی توقع سے پہلے اس کی طرف سے گولیوں کی آزمائش کے بظاہر غیر ضروری اصرار کا اصل مقصد سمجھ لیا تھا۔ میں نے غیر محسوس انداز میں اسے آنکھ ماری اور ردِ عمل جاننے کے لیے شکتی کی طرف دیکھا ۔ وہ مجھے کچھ متذبذب نظر آیا۔
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے کہا۔ ’’میرے پاس دو ڈبل بیرل شاٹ گنیں ہیں۔ ان سے کارتوس چلاکر چیکنگ کرلیں‘‘۔
میں نے اس کی طرف دیکھ کر معنی خیز انداز میں آنکھ دبائی اور خوش گوار لہجے میں کہا۔ ’’ہم سے پردہ داری کی کیا ضرورت ہے شکتی جی۔ تمہارے جیسا کوئی سینئر فوجی اسلحے خانے میں اسٹین گن جیسا کھرا مال چھوڑ کر بیل گاڑی میں صرف گولیاں لاد کر کیسے لا سکتا ہے؟ دکھادو، گوروں سے اور کیا کیا ہتھیایا ہے۔ اچھی لگ گئیں تو ان بندوقوں کے بھی منہ مانگے دام دے دوں گا میں۔ گوروں والی کوالٹی کا مال اب ہندوستان میں تھوڑی ملے گا مجھے‘‘۔
شکتی تھوڑا ہچکچایا۔ پھر اس نے ہار مانتے ہوئے کہا۔ ’’جی اب تو صرف تین اسٹین گنیں ہیں میرے پاس۔ وہ میں نے اپنے لیے بچاکر رکھی ہوئی ہیں‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment