قمر زمانی کے ’’معافی نامہ ‘‘ نے دلگیر میں زندگی کی لہر دوڑادی

ترتیب و پیشکش
ڈاکٹر فرمان فتحپوری
دلگیر کے واپس چلے جانے کے بعد قمر زمانی نے دلگیر سے اپنی معذوریوں اور کوتاہیوں کی معافی چاہی اور ایک مفصل خط دلگیر کے نام روانہ کیا:
بریلی
18 جنوری 1917ء
کنیز نواز۔ عذر گناہ اور پھر وہ بھی میری زبان سے مجھے شرمندہ اور آپ کو اور زیادہ دلگیر بنا دے گا۔ آپ فرمایئے معذرت کروں یا نہ کروں۔ نہ کروں گی، اچھا نہ کروں گی، صرف مجبوریوں کا اظہار کروں گی۔
مجھے درحقیقت آپ کے سب خط مل گئے ہیں۔ ایک… اس ’’مزار دل‘‘ نے تڑپا دیا۔ کیا کہوں کہ یہاں کیا گزر گئی۔ اپنا نہیں میرا مزار دل کہئے۔ یا دوسرا لکھنؤ کا، اور نہیں وہ جو بریلی سے ہی بریلی میں بھیجے گئے تھے۔ وہی بریلی جان۔ میں نصیبوں میں اپنی قسمت کو لیے رو رہی ہوں۔ کاش میں گرد راہ ہو کر قدموں سے لپٹتی۔ نثار ہوتی آنکھوں کا فرش بچھاتی۔ خدا کے لیے خفا نہ ہو جانا۔ واقعہ یہ ہے کہ لکھنؤ اور آگرہ کے خط مجھے اس وقت ملے، جب آپ خیر سے بریلی تشریف لا چکے تھے اور مجھ بدنصیب کو خبر نہ تھی۔ آپ کے باقی خط مجھے اس دن ملے، جب آپ واپس جا چکے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ میں ان تین خطوں کا جواب نہ دے سکی اور نہ آپ سے ملنے کی کوئی تدبیر نکال سکی۔ آپ کے سر کی قسم، 5 جنوری کو آپ کے تینوں خط ایک ساتھ ملے، جو بریلی سے لکھے گئے تھے۔ سر پیٹ لیا۔ جی چاہتا تھا کہ کپڑے پھاڑ کر باہر نکل جائوں اور اپنے دلگرفتہ دلگیر کو جس طرح بنے منا لائوں۔ لیکن وقت نکل چکا تھا اور ہم سے روٹھ کر جانے والے جا چکے تھے۔
کام تو اور چرخ میں بگڑے ہوئے اکثر بنے
تم سے جب بن کر بگڑ جائے تو پھر کیونکر بنے
مگر نہیں میں مایوس نہیں ہوں۔ منا لوں گی اور آپ من جائیں گے، ہمیں منانا آتا ہے۔
حضور، قصہ یہ ہے کہ جن صاحب کے ذریعہ سے خط منگواتے ہیں، وہ میرے بہت دور کے عزیز ہیں اور ان کا مکان بھی فاصلے پر ہے۔ ان کو یقین دلا دیا تھا کہ ق، ز کے خطوط دراصل ایک اور خاتون کے لیے ہوتے ہیں۔ مگر آپ نے ستم کر دیا۔ خدا جانے آپ نے ان سے کیا کہا ہو گا اور وہ کیا سمجھے ہوں گے۔
انداز جنوں کون سا ہم میں نہیں مجنوں
پر تیری طرح عشق کو رسوا نہیں کرتے
مجھ سے ضبط و تحمل سیکھئے۔ خیر، بدقسمتی سے اس زمانے میں دہلی چلی گئی تھی اور خط کا لانے والا کوئی نہ تھا۔ ممکن تھا کہ وہ ان خطوط کو کسی طرح مجھ تک پہنچا دیتے، مگر ان کے اور نیز میرے ایک عزیز کا انتقال ہو گیا تھا۔ اس وجہ سے وہ ان پریشانیوں میں مبتلا رہے اور نہ بجھوا سکے۔ اب فرمایئے، اپنے کو کوسوں یا اپنی قسمت کو روئوں۔ میری قسم سچ سچ کہنا کیا آپ واقعی آئے تھے۔ یہ سب سچ سہی، مگر مجھے خدا جانے کیوں یقین نہیں آتا۔ ہائے اللہ کتنے ارمان تھے۔ دیکھئے میں کوشش کر رہی ہوں، بنارس یا اجین جہاں ممکن ہوا آپ سے ملوں گی۔ لو اب تو من جائو۔ ہاں اگر تکلیف نہ ہو تو نقاد کے سارے پرچے مجھے بھجوا دیجئے۔ یہ نہ پوچھئے کہ کیوں منگواتی ہوں۔
دلگیر دلنواز کی
’’دل گرفتہ ق ز‘‘۔
قمر زمانی کے خط کا پہنچنا تھا کہ دلگیر میں تازہ روح زندگی دوڑ گئی۔ بے دلی و مایوسی پھر ایک شگفتگی و امید میں بدل گئی۔ کوہ شکایت، ناز و نیاز اور عذر و معذرت کے جذبات امنڈ پڑے۔ چنانچہ فوراً ایک طویل خط بذریعہ رجسٹری، قمر زمانی کے نام روانہ کیا۔ خط دیکھئے:
جمعہ 26 جنوری 1917ء
میری دلگرفتہ نہیں، دلگیر
خدا اس دل گرفتگی اور دلگیری کو قائم رکھے، کہئے آمین۔ آپ کا خط آیا میں تو سمجھا تھا کہ…
اب نہیں کوئی سوا موت کے آنے والا
یہ مصرعہ لکھتے ہی قطرات اشک کی بارش شروع ہو گئی۔ خدا جانے کیوں دل بھر آیا۔ 18 جنوری کا خط 24 جنوری کو مجھے ملا۔ اف ڈاک کا یہ ظلم۔ ’’کنیز نواز‘‘، اس القاب نے مار ڈالا۔ نہیں سرکار تو میرے دل کی مالک، میری جان کی مختار ہیں۔ کنیز ہوں آپ کے دشمن۔ خدا کے لیے ایسے الفاظ نہ لکھا کیجئے، جن سے مجھے صدمہ ہو۔ یہ پڑھتے ہی واللہ میری روح لرز گئی۔ معذرت آپ کو زیبا نہ تھی۔ خوش ہوا کہ آپ نے اس سے اجتناب کیا۔ ورنہ میں کہیں کا نہ رہتا۔ ہائے میرے شرمندہ کرنے کے لیے مجھے تباہ کرنے کے لیے، صرف آپ کی مجبوریوں کا اظہار ہی کافی ہے جو آپ نے کر دیا۔
یہ پڑھ کر مسرت ہوئی کہ میرے سب خط آپ کو مل گئے۔ گو، میں نہ مل سکا جس کی آرزو تھی۔ ’’اپنا نہیں میرا مزار دل کہئے‘‘، آہ اس فقرے نے رلا دیا:
’’کیا کروں میں دکھا ہوا جی ہے‘‘
’’کاش میں گرد راہ ہو کر قدموں سے لپٹتی۔ نثار ہوتی۔ آنکھوں کا فرش بچھاتی‘‘۔ کیا آپ نے میرے برباد کرنے، دنیا سے کھونے کا پورا تہیہ کر لیا ہے۔ کیا میں محبت کے ان دلدوز تیروں کو کھا کر زندہ رہ سکتا ہوں، ہائے نہیں:
اک روز رنگ لائیں گی یہ مہربانیاں
میں جانتا ہوں، جان کے خواہاں تمہیں تو ہو
واللہ بریلی کی ساری کوفت ان جذبات محبت سے لبریز فقروں کو پڑھ کر جاتی رہی۔ میں اور آپ سے خفا، تمام دنیا ملنے پر بھی ممکن نہیں۔
فطرت میرے لیے اکثر ظالم ثابت ہوئی ہے۔ چنانچہ دلی اور بریلی میں اس کا کرشمہ آپ نے بھی دیکھ لیا۔ ’’میری تقدیر میں دلگیر ہی رہنا مقدر ہے‘‘۔
’’آپ کے سر کی قسم (قربانت شوم) جس میں 5 جنوری کو آپ کے تینوں خط ایک ساتھ ملے جوبریلی سے لکھے گئے تھے۔ سر پیٹ لیا۔ جی چاہتا تھا کہ کپڑے پھاڑ کر باہر چلی جائوں اور اپنے دل گرفتہ دلگیر کو جس طرح بنے منا لائوں۔ وقت نکل چکا تھا اور ہم سے روٹھ کر جانے والے جا چکے تھے‘‘۔
مجھے اس فقرے پر مدہ العمر ناز رہے گا اور اپنے دل گرفتہ دلگیر کو جس طرح بنے منا لائوں۔ یوسف کا واقعہ کیا تم نے سنا نہ ہو گا۔ ’’اللہ راس لائے اپنا غلام کہنا‘‘
’’اور ہم سے روٹھ کر جانے والے جا چکے تھے‘‘
ارے توبہ میرے لیے یہ فقرہ نہیں، نشتر ہے۔ وہ بھی زہر میں بجھا ہوا، جس کا زخم آپ کو کیسے دکھائوں۔ میں بریلی سے ہرگز واپس نہ آتا، اگر مجھے یقین ہوتا کہ میرے خط آپ کو مل رہے ہیں اور آپ وہاں موجود ہیں۔ عالم یاس میں جو کچھ ہو جائے کم ہے۔ شکر کیجئے کہ آپ کے خط کا جواب دینے کے لیے اب تک زندہ رہ سکا، ورنہ سب سامان ہو چکے تھے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment