مرزا عبدالقدوس
وفاقی حکومت تاحال فوجی عدالتوں کی توسیع میں سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہی۔ وزارت داخلہ کی سفارش پر وزارت قانون نے اس سلسلے میں وفاقی کابینہ میں پیش کرنے کیلئے جو سمری تیار کی تھی، ایجنڈے پر ہونے کے باوجود وزیر اعظم نے اسے مؤخر کردیا۔ وزیر اعظم نے فواد چوہدری کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹی کو اپوزیشن سے اس سلسلے میں رابطے کرنے کا ٹاسک سونپا ہے، جسے سید خورشید شاہ نے حکومت کی غیر سنجیدگی سے تعبیر کیا ہے۔ جبکہ سب سے بڑی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) سے بھی پی ٹی آئی حکومت نے رابطہ کیا ہے۔ معتبر حکومتی ذرائع کے مطابق ان کے اپوزیشن کی جماعتوں سے سیاسی ایشوز پر اختلافات ہیں، لیکن قومی ایشوز پر پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کا بھی وہی موقف ہے جو تحریک انصاف حکومت کا ہے۔ ماضی میں جب پی ٹی آئی حزب اختلاف میں تھی تو اس نے نواز لیگ سے شدید اختلاف کے باوجود اس قومی ایشو پر یعنی فوجی عدالتوں کے قیام کیلئے نواز لیگ کی حکومت سے تعاون کیا اور پھر ان عدالتوں کے قیام میں توسیع کا موقع آیا تو اس وقت بھی پی ٹی آئی نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے تعاون کیا تھا۔ اس لئے اب نواز لیگ اور پیپلز پارٹی اس اہم ایشو پر قومی مفاد میں موجودہ حکومت کے ساتھ تعاون کریں گی۔ ان ذرائع کے مطابق ان دونوں جماعتوں سے باقاعدہ رابطہ کیا جائے گا۔ چونکہ یہ سیاسی نہیں قومی معاملہ ہے اس لئے اس حساس ایشو پر سیاسی لین دین کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ نیشنل ایکشن پلان اور آپریشن ضرب عضب پر پوری قوم اور تمام جماعتوں کا موقف ایک ہے۔ فوجی عدالتوں کا قیام نیشنل ایکشن پلان کا ایک اہم نکتہ ہے۔ اس پر باہمی تعاون طے شدہ قومی پالیسی ہے، جس کا ماضی میں پی ٹی آئی بطور اپوزیشن جماعت ثبوت دے چکی ہے۔
’’امت‘‘ نے اس سلسلے میں جب مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما رکن قومی اسمبلی و سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی مرتضیٰ جاوید عباسی سے ان کے جماعت کا موقف جاننے کیلئے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ’’جمعرات تک ہماری جماعت کی قیادت سے حکومت نے رابطہ نہیں کیا تھا۔ حکومت تمام معاملات چلانے میں غیر سنجیدہ ہے۔ یہاں تک کہ چھ ماہ ہونے کو ہیں، لیکن قائمہ کیمٹیاں تشکیل نہ پانے کی وجہ سے پارلیمنٹ ابھی پوری طرح فنکشنل نہیں ہے۔ اپوزیشن جماعتیں حکومت کے پیچھے ان کمیٹیوں کے قیام کیلئے دوڑ رہی ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی کی حکومت سنجیدہ نہیں۔‘‘ مرتضی جاوید عباسی نے کہا کہ ’’معاملہ فوجی عدالتوں کے قیام کا ہے۔ ان عدالتوں کی دو سالہ توسیعی مدت گزر چکی ہے۔ لیکن حکومت نے اپوزیشن کو اعتماد میں لینے کے لئے اب تک رابطہ بھی نہیں کیا۔‘‘ مرتضی جاوید عباسی نے کہا کہ ’’جب پہلی دفعہ ان عدالتوں کی مدت میں مارچ 17ء میں توسیع کی گئی تھی تو اس کا جواز موجود تھا۔ بہت سے کیسز ان عدالتوں میں زیر التوا تھے۔ کچھ ابتدائی مراحل میں بھی تھے۔ اس لئے ہماری حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کے تعاون سے توسیع کی۔ اس سلسلے میں اپوزیشن کو اعتماد میں لینے کیلئے چند ہفتوں کی تاخیر بھی ہوئی تھی۔ یہ قومی ایشو ہے، اگر حکومت کی خواہش ہے کہ فوجی عدالتوں میں دوبارہ توسیع ہو تو اس حوالے سے بات اپوزیشن کے سامنے رکھے۔ اگر واقعتاً اس بات کا جواز ہوا تو ہم غور کریں گے، لیکن فی الحال خود حکومت ہی سنجیدہ نظر نہیں آرہی۔‘‘
پیپلز پارٹی کے سیکریٹری فرحت اللہ بابر فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کو مسترد کرچکے ہیں۔ جبکہ جمعہ کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی پی پی کے رہنما خورشید شاہ نے کہا کہ فواد چوہدری کو اس معاملے پر اپوزیشن سے رابطوں کی ذمہ داری سونپا، عمران خان کی غیر سنجیدگی ظاہر کرتا ہے۔ اس ضمن میں پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی صداقت علی عباسی نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر اپوزیشن کو فواد چوہدری کا چہرہ پسند نہیں تو، پی ٹی آئی اس اہم قومی ایشو پر اپوزیشن سے رابطوں کی ذمہ داری کسی اور کو بھی سونپے پر غور کرسکتی ہے۔ لیکن فواد حیسن چوہدری بھی پارٹی موقف بیان کرتے ہیں اور قومی ایشوز پر تمام جماعتوں کا موقف تقریباً یکساں ہے۔ فوجی عدالتیں نیشنل ایکشن پلان کے تحت وجود میں آئیں، جسے تمام جماعتوں کے اتفاق رائے سے منظور کیا گیا تھا۔ ان عدالتوں نے دہشت گردوں کے خاتمے اورانہیں نکیل ڈالنے میں اہم کردار ادا کیا۔‘‘
واضح رہے کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد جنوری 2015ء میں ملٹری کورٹس (فوجی عدالتیں) کا قیام دو سال کیلئے وجود میں لایا گیا تھا۔ دو سالہ مدت کے خاتمے کے بعد ان کی مدت میں 23 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے مارچ 2017ء میں دوسال کی توسیع کی گئی جو اب ختم ہوگئی ہے۔
٭٭٭٭٭