اسلام آباد کی 75 فیصد طالبات نشئی ہونے کے ٹھوس شواہد نہیں

محمد زبیر خان
اسلام آباد کی 75 فیصد طالبات اور 55 فیصد طلبا نشے کے عادی ہونے کے بارے میں کوئی ٹھوس شواہد سامنے نہیں آسکے۔ بیشتر ماہرینِ تعلیم نے وزیر مملکت برائے امور داخلہ شہریار خان آفریدی کے پیش کردہ اعداد و شمار کو مبالغہ آرائی قرار دے دیا۔ جبکہ منشیات کے عادی افراد کا علاج کرنے والے ادارے بھی شہریار خان آفریدی کے دعوے کو مسترد کرتے ہیں۔ البتہ اکتوبر 2016ء میں سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی میں ساؤتھ ایشین اسٹرٹیجک اسٹڈیز انسٹیٹیوٹ (سیسی) نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے ایک رپورٹ پیش کی گئی تھی، جس کے مطابق اسلام آباد کے 40 تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے 400 طلبا و طالبات نشہ کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ وزیر مملکت برائے امور داخلہ شہریار خان آفریدی نے دسمبر میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اسلام آباد کی 75 فیصد طالبات اور 55 فیصد طلبا منشیات استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ ان کے پاس موجود معلومات کی بنیاد پاکستان میں کرایا جانے والا ایک سروے ہے۔ تاہم یہ سروے کس نے کرایا اور کہاں ہوا؟ اور پھر اس سروے کے مطابق قانون نافذ کرنے والے ادارے کس طرح حرکت میں آئے، یہ سب کچھ نہیں بتایا گیا تھا۔ ’’امت‘‘ نے وزارت داخلہ کے دفتر میں کئی مرتبہ رابطہ قائم کر کے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی، مگر کبھی بھی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا۔ بلکہ ایک مرتبہ وزارت داخلہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ خفیہ ترین سروے ہے، جس کی معلومات نہیں دی جاسکتی۔ ’’امت‘‘ نے اس حوالے سے اسلام آباد کے مختلف اسکولوں میں طلبہ اور انتظامیہ کے علاوہ بعض ماہرینِ تعلیم سے بھی بات کی تو معلوم ہوا کہ وزیر مملکت برائے داخلہ کے اعداد و شمار مستند نہیں، لیکن اسلام آباد کے اسکولوں میں منشیات کے استعمال کا رجحان بہرحال بڑھ رہا ہے۔ یاد رہے کہ شہریار خان آفریدی کے اس بیان کے بعد انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے قومی اسمبلی میں کہا تھا کہ اصل میں 75 فیصد طالبات منشیات استعمال نہیں کرتیں، بلکہ ان کی تعداد میں 70 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب اکتوبر 2016ء میں سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی میں ایک غیر سرکاری تنظیم ساؤتھ ایشین اسٹرٹیجک اسٹڈیز انسٹیٹیوٹ (سیسی) کی طرف سے ایک رپورٹ پیش کی گئی، جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اسلام آباد کے 40 تعلیمی اداروں کے 400 طلبا و طالبات نشہ کرتے ہیں۔ ان تعلیمی اداروں میں اکثریت پرائیویٹ اسکولوں کی بتائی گئی، جہاں 53 فیصد طالبعلم نشہ کرتے ہیں۔ جبکہ سرکاری اسکولوں میں یہ شرح صرف دو فیصد بتائی گئی تھی۔ دستیاب رپورٹ میں چھ طرح کی منشیات کا نام لیا گیا، جس میں آئس، ہیروئن، زینیکس، افیون اور بھنگ شامل ہیں۔ اسی رپورٹ کی بنیاد پر طالبعلموں کے ڈرگ ٹیسٹ کروانے کی بھی بات کی گئی، مگر عملی طور پر اب تک ایسا ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان میں سرکاری طور پر ایسے کوئی اعدادوشمار دستیاب نہیں، جس سے واضح ہو کہ پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد کتنی ہے۔ تاہم اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این او ڈی سی کی 2016ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد سات ملین ہو سکتی ہے۔
’’امت‘‘ کے رابطہ کرنے پر منشیات کے عادی افراد کے لئے بحالی کا مراکز چلانے والے ڈاکٹر زہیب احسن نے شہریار آفریدی کے دعوے پر نہ صرف تنقید کی بلکہ اس کی تردید بھی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر مملکت برائے امور داخلہ کا بیان مبالغہ آرائی پر ہے۔ ایسا تو دنیا کے ان علاقوں میں بھی نہیں، جو منشیات کے حوالے سے بدترین سمجھے جاتے ہیں۔ روٹس ملینیئم اسکول کی ڈائریکٹر کمیونیکیشن سبینہ ذاکر کا کہنا تھا کہ اب تک اسکولوں میں منشیات کے حوالے سے کئی بار انسپکٹر جنرل پولیس اور پارلیمانی ارکان کے ساتھ میٹنگ ہو چکی ہیں۔ لیکن ان ملاقاتوں میں ایک بار بھی کوئی ٹھوس ثبوت نہیں پیش کیا گیا۔ جبکہ اسلام آباد پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ پچھلے ڈیڑھ ماہ کی کارروائی میں اب تک دس منشیات فروش پکڑے جا چکے ہیں، جن کا تعلق کہیں نہ کہیں اسکولوں میں منشیات بیچنے سے بھی رہ چکا ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ کارروائی وزیرِاعظم کے کہنے پر شروع کی گئی تھی۔ اب تک بارہ کہو، تھانہ کھنہ کے علاقے، کورال اور ترنول میں گرفتاریاں ہو چکی ہیں۔ ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ ’’بخت منیر نام کا ایک منشیات فروش بھی گرفتار کیا گیا ہے جو پولیس کو اسکولوں میں منشیات فراہم کرنے کے جرم میں کافی عرصے سے مطلوب تھا۔ اسی حوالے سے انسپکٹر جنرل عامر ذوالفقار خان نے جنوری کے دوسرے ہفتے میں پرائیویٹ اسکولوں اور والدین کے لئے ایچ 11 پولیس لائن میں ایک سیمینار منعقد کیا۔ ہماری کوشش یہ ہے کہ اس بارے میں جتنی آگاہی والدین اور اسکولوں کو دے سکیں، دی جائے۔ اس وقت سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ہیش ٹیگ ’ڈرگز فری اسلام آباد‘ کے ساتھ منشیات سے منسلک آگاہی دی جا رہی ہے، اور پچھلے دو ہفتوں میں والدین، اساتذہ اور پرائیویٹ اسکولوں کے ترجمانوں کے ساتھ بھی ملاقاتیں رکھی گئی ہیں‘‘۔ لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ اسکولوں میں سیمینار کرانے کے بعد کیا شواہد ملے اور کیا وہ شواہد موجودہ رپورٹوں کی عکاسی کرتے ہیں؟ تو اس پر ان کا کہنا تھا کہ ’’اتنی تگ و دو کے پیچھے کوئی نہ کوئی رپورٹ ضرور شامل ہوگی۔ ہم اپنے حکومتی اداروں کے بیان کی نفی نہیں کرسکتے‘‘۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار خان آفریدی کے بیان کے حوالے سے ان کے نمائندے نے اسلام آباد کے پرائیویٹ اسکولوں کی چند طالبات سے بات کی۔ ان طالبات نے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر بی بی سی سے بات کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ ایک پرائیویٹ اسکول کی طالبہ نے کہا کہ ’’اب تک ہمیں صرف بتایا جا رہا ہے کہ ہمارے ساتھ کوئی مسئلہ ہے، لیکن یہ مسئلہ کیا ہے اور کیوں ہے، یہ کوئی نہیں سمجھنا چاہ رہا۔ منشیات کے استعمال پر بات چیت بہت سطحی ہوتی ہے، جس کا اکثر سچائی سے دور دور تک کا تعلق نہیں ہوتا‘‘۔ اس کے ساتھ موجود ایک اور طالبہ نے کہا کہ ’’ہمارے والدین اور اساتذہ منشیات کے کسی بھی طرح کے استعمال کو مکمل طور پر غلط ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ ان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کبھی کبھار اس سے مدد بھی ملتی ہے‘‘۔ اسی بارے میں اے لیول کے ایک طالبعلم نے کہا کہ ’’میرے اسکول میں بہت سے ایسے بچے ہیں جو منشیات کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ میرے سامنے اتنی بڑی بات اس لیے نہیں کیونکہ ان کے استعمال کی سب سے بڑی وجہ پریشانی ہے۔ میرے آس پاس بہت سے بچے ذہنی امراض کا بھی شکار رہتے ہیں اور اس صورتحال میں کچھ منشیات ایسی ہیں جو ان کو روز صبح گھر سے باہر نکلنے اور دنیاوی معاملات میں حصہ لینے کے لئے تیار کرتی ہیں‘‘۔ او لیول کی ایک طالبہ نے کہا ’’آئس کا نشہ میں نے نہیں کیا، کیونکہ میں اسے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتی۔ لیکن میں نے موڈ بہتر کرنے کے لئے منشیات کا استعمال کیا ہے، جن کو ’اپر‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بات اگر میں اپنے والدین سے کروں گی تو وہ شاید نہ سمجھیں۔ لیکن میری زندگی کے لئے یہ منشیات اہم ہے، اور مجھے ایسا کہنے میں قباحت اس لیے نہیں کہ اس کا دوسرا حل خود کشی ہے، جو میں نہیں کرنا چاہتی‘‘۔ ایک اور طالبعلم کا کہنا تھا ’’مجھے اگر منشیات سے منسلک آگاہی چاہیے بھی ہوگی تو وہ اس بارے میں ہو گی کہ کتنی مقدار میں استعمال کی جائے، تاکہ جان نہ چلی جائے۔ میں نے امتحانات کے دوران نیند کی گولیاں بھی کھائی ہیں، تاکہ دماغ سکون میں رہے، اور نیند نہ آنے پر شراب کا استعمال بھی کیا ہے۔ لیکن مجھے بذاتِ خود اس کی عادت نہیں ہے‘‘۔ ایک اور طالبہ نے کہا کہ اس کے لئے منشیات کا استعمال عارضی ہے۔ میں پریشانی کے دوران، امتحانات کے دوران اور کسی پراجیکٹ کی تیاری کرتے ہوئے منشیات کا استعمال کرتی ہوں۔ لیکن یہ استعمال عارضی ہے۔ مجھے بس یہ ڈر ہے کہ کہیں اس کی عادت نہ لگ جائے‘‘۔ ان تمام طالبعلموں نے بتایا کہ ان کے اسکولوں میں کسی ڈیلر کے بجائے اکثر دوستوں کے ذریعے منشیات لائی جاتی ہیں، جو ان کو کسی منشیات فروش سے ملتی ہیں۔
سینیٹ میں جمع کرائی جانے والی رپورٹ کے حوالے سے بی بی سی کی ایک اور رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیسی کی ڈائریکٹر جنرل، ڈاکٹر ماریہ سلطان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ دراصل وہ ’نارکوٹکس جہاد‘ پر مبنی ایک رپورٹ پر کام کر رہی تھیں۔ 1980ء سے لے کر 1990ء تک افغانستان کے راستے پاکستان میں منشیات کی آمد اس رپورٹ کی بنیاد تھی، اور اسی دوران ان کو یہ شواہد ملے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اسکولوں میں منشیات کی لت پر مبنی رپورٹ دراصل ایک پائلٹ تحقیق کا حصہ ہے، جس میں ہم نے 40 سے زائد اسکولوں میں پڑھنے والے 400 بچوں سے بات کی۔ ہمیں لگا کہ یہ نتائج حیرت انگیز ہیں، جس کے بعد ہم نے یہ نتائج سینیٹ میں جمع کرائے‘‘۔ لیکن انہوں نے بی بی سی کو رپورٹ دینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اس میں بہت سارے بچوں کی شناخت پوشیدہ ہے، جس کو وہ سامنے نہیں لانا چاہتیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’’بچوں میں منشیات کے استعمال کی فراوانی کی ایک بڑی وجہ اس تک آسان رسائی ہے۔ اس میں انتطامیہ کی طرف سے بھی کوتاہیاں دیکھیں گئی ہیں۔ ملک میں موجود منشیات پر بننے والے قانون کی اگر پیروی کی جائے اور اس کی بنیاد پر اسکولوں میں بھی آگاہی دی جائے تو خاصا فرق پڑ سکتا ہے۔ یہ اعداد و شمار کم ہو سکتے ہیں‘‘۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment