انصار کے ایک گھرانے میں ایک اونٹ تھا، جس پر وہ پانی کے مشکیزے لاد کر لایا کرتے تھے۔ اس اونٹ نے سرکشی شروع کردی۔ نہ وہ اپنی پشت پر سوار ہونے دیتا، نہ کسی کو سامان لادنے دیتا۔ اس کے مالک نے حضور اکرمؐ کے پاس آکر اس اونٹ کی سرکشی کی شکایت کی، جس کی وجہ سے ان کے نخلستان اور کھیت خشک ہو رہے تھے۔ آپؐ اپنے کئی صحابہ کرامؓ کے ساتھ مالک کے ڈیرے پر تشریف لے گئے۔ حویلی میں داخل ہوئے تو اونٹ کو دیکھا جو ایک کونے میں کھڑا تھا۔ آپؐ اس کی طرف تشریف لے گئے۔
انصار صحابہؓ نے عرض کیا: حضور! آپ اس کے قریب نہ جائیں۔ یہ آپ کو نقصان نہ پہنچائے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’مجھے وہ کوئی تکلیف نہیں پہنچا سکتا‘‘۔ اونٹ نے جب آپؐ کو دیکھا تو وہ دوڑ کر آیا اور حضور اقدسؐ کے سامنے جھک گیا اور اپنے منہ کا حصہ آپؐ کے سامنے زمین پر رکھ دیا۔ آپؐ نے اس کی پیشانی کے بالوں کو پکڑ لیا۔ وہ بالکل تابع و فرمانبردار بن گیا۔ حضور اکرمؐ نے اس کو حکم دیا جو کام اپنے مالک کا وہ پہلے کیا کرتا تھا، وہ اب بھی کرے۔ صحابہ کرامؓ نے یہ منظر دیکھا تو عرص کیا: حضور! یہ جانور ناسمجھ ہو کر آپ کو سجدہ کررہا ہے۔ ہم تو عقل و فہم کے مالک ہیں، ہمارا زیادہ حق ہے کہ آپ کو سجدہ کریں۔ آپؐ نے فرمایا کسی انسان کے لیے دوسرے انسان کو سجدہ کرنا جائز نہیں، اگر یہ جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے، کیونکہ خاوند کا حق عورت پر سب سے زیادہ ہے۔ (نسائی، مسند احمد)
امام احمد اور بیہقی یعلیٰ بن مرہ الثقفی سے روایت کرتے ہیں کہ ہم نبی اکرمؐ کے ہمراہ شریک سفر تھے۔ ہمارا گزر ایک اونٹ کے پاس سے ہوا۔ جس پر اس کے مالک پانی کے مشکیزے سے لاد کر لایا کرتے تھے۔ جب اس اونٹ نے نبی اکرمؐ کو دیکھا تو بڑبڑایا اور گردن کا اگلہ حصہ زمین پر رکھ دیا۔ آپؐ نے رک کر پوچھا: اس اونٹ کا مالک کون ہے؟
وہ حاضر ہوا تو حضور اکرمؐ نے فرمایا: یہ اونٹ میرے ہاتھ فروخت کردو۔ اس نے عرض کیا : حضور! میں بطور ہدیہ آپ کو پیش کرتا ہوں۔ یہ اس خاندان کا اونٹ ہے، جن کے پاس اس کے علاوہ کسب معاش کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
حضور اکرمؐ نے فرمایا ’’اب اگر یہ بات ہے تو سنو تمہارے اونٹ نے تمہاری شکایت کی ہے کہ تم اس سے کام زیادہ لیتے ہو اور چارہ کم کھلاتے ہو۔ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ کام تھوڑا اور چارہ زیادہ ڈالو۔‘‘
دارمیؒ، بزارؒ اور بیہقیؒ حضرت جابرؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک اونٹ حضور اقدسؐ کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ جب وہ حضورؐ کے قریب ہوا تو سجدے میں گر پڑا۔ بنی اکرمؐ نے فرمایا: اے لوگو! اونٹ کا مالک کون ہے؟
چند انصاری جوان آگے بڑھے اور کہا یہ ہمارا اونٹ ہے۔ حضور اکرمؐ نے پوچھا: اسے کیا تکلیف ہے؟ انہوں نے عرض کیا: ’’حضور! بیس سال تک ہم اس پر پانی کے مشکیزے لاد کر لاتے رہے ہیں۔ اب یہ بوڑھا ہوگیا ہے، ہمارا ارادہ اس کو ذبح کرنے کا ہے۔
رحمت دو عالمؐ نے فرمایا تم مجھے یہ اونٹ فروخت کردو۔ انہوں نے عرض کیا: حضور! یہ اونٹ حضور کا ہی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو، یہاں تک کہ اس کا مقررہ وقت آجائے۔ انصاری نوجوانوں نے عرض کیا: حضور! اس نادان اور ناسمجھ اونٹ نے آپ کو سجدہ کیا۔ ہم اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ حضور کو سجدہ کریں۔ آپؐ نے فرمایا کسی انسان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی انسان کو سجدہ کرے۔ حضور نے اونٹ کے مالک سے فرمایا: یہ تمہارا اونٹ تمہاری شکایت کیوں کررہا ہے؟ اس کا خیال ہے کہ اب یہ بوڑھا ہوگیا ہے، تم اس کو ذبح کرنے کا ارادہ رکھتے ہو۔ مالک نے کہا حضورؐ نے سچ فرمایا۔ اس خدا کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، میں اسے ذبح نہیں کروں گا۔
طبرانیؒ حضرت ابن عباسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انصار میں سے ایک شخص کے دو اونٹ تھے جو سرکش ہو گئے تھے۔ انہیں اس نے ایک چار دیواری میں قید کرکے دروازہ بند کر دیا اور حضور اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا تاکہ آپؐ سے دعا کرائے کہ وہ اونٹ اس کے تابعدار ہو جائیں۔ حضور اکرمؐ نے اپنے چند صحابہؓ کو ساتھ لیا اور اس دروازے پر پہنچے۔ مالک کو دروازہ کھولنے کا حکم دیا۔ وہ دروازہ کھولنے سے جھجکا مبادا اونٹ آپؐ کو کوئی نقصان نہ پہنچائیں۔ حضورؐ نے اسے سختی سے دروازہ کھولنے کا حکم دیا۔ اس نے دروازہ کھولا۔ ایک اونٹ دروازے کے پاس ہی بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے جب حضور اکرمؐ کو دیکھا تو فوراً سجدے میں گر گیا۔ آپؐ نے اس کے مالک سے ایک رسی منگوا کر اس کا سر باندھا اور مالک کے حوالے کر دیا۔ دوسرا اونٹ حویلی کے آخری کنارے پر کھڑا تھا۔ اس نے جب حضور اکرمؐ کو دیکھا تو وہ بھی سجدے میں گر گیا۔ آپؐ نے اونٹ کے مالک سے رسی منگوا کر اس کا سر بھی باندھ کر مالک کے حوالے کیا اور فرمایا: انہیں لے جائو، اب یہ تمہاری نافرمانی نہیں کریں گے۔
امام طبرانیؒ نے حضرت زید بن ثابتؓ سے اور حاکمؒ نے حضرت ابن عمرؓ سے روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ ایک غزوے میں ہم سرور عالمؐ کے ساتھ تھے، جب ہم ایک چوراہے پر پہنچے تو ہمیں ایک اعرابی دکھائی دیا جو ایک اونٹ کی نکیل ہاتھ میں پکڑے آرہا تھا، جب وہ قریب ہوا تو اس نے رسول اکرمؐ کو سلام کیا۔ آپؐ نے اس کے سلام کا جواب دیا۔ اسی اثنا میں ایک شخص نے آکر شکایت کی کہ اس اعرابی نے میرا یہ اونٹ چرا لیا ہے۔ اس وقت اس اونٹ نے بلبلا کر رونا شروع کردیا۔ آپؐ اونٹ کے بلبلانے کو سنتے رہے، پھر اس شخص سے فرمایا ’’جا، آنکھوں سے دور ہو جا۔ یہ اونٹ گواہی دے رہا ہے کہ تو جھوٹا ہے اور یہ اعرابی اس اونٹ کا مالک ہے۔‘‘
٭٭٭٭٭