سرفروش

عباس ثاقب
شکتی نے کچھ ہچکچاہٹ کے ساتھ ایک موٹی رقم طلب کی، جو اصل مالیت سے کم ازکم ڈیڑھ گنا تھی۔ لیکن میں نے وعدے کے مطابق بلاحجت قبول کرلی اور مختلف اندرونی جیبوں سے نوٹوں کی گڈیاں نکال کر گنتی کی اور رقم شکتی کے حوالے کر دی۔ ’’اطمینان سے گن لو بھائی، ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے‘‘۔
شکتی نے احسان مندی سے کہا ’’اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے کنور جی، مجھے پورا بھروسا ہے۔ آپ نے بھی تو گولیوں کی گنتی نہیں کی‘‘۔
اس نے تو اپنی وسعت قلبی ضرور دکھائی، لیکن میں جانتا تھا کہ اس گرگ باراں دیدہ نے میرے ساتھ ساتھ ہر نوٹ گنا ہے۔ میں اپنی طرف سے خرید و فروخت اور لین دین کا معاملہ ختم کر چکا تھا، لیکن پتا چلاکہ ظہیر ابھی بھی مزید کی جستجو میں ہے۔ اس نے شکتی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’شکتی جی یہ تو ہوگئی بڑے ہتھیاروں کی بات، آپ چھوٹے ہتھیار بھی تو لائے ہوں گے۔ اگر کوئی اچھی چیز ہے تو وہ بھی دکھا دیں‘‘۔
میں نے پہلی بار شکتی کے چہرے پر بے آرامی کی کیفیت محسوس کی ’’میرے پاس میرا سروس ریوالور ہے۔ پرنتو میں اسے بیچنا نہیں چاہتا‘‘۔
ظہیر نے زور دے کر کہا ’’دیکھ لو شکتی جی، اس وقت کنور جی خزانہ لٹانے پر اُتارو ہو رہے ہیں۔ اچھے دام مل جائیں گے۔ اس سے بہت کم داموں میں نیا، پرمانک (قانوناً جائز) ریوالور یا پستول مل جائے گا۔ تمہیں تو پتا ہے پچھلے سال سرکار نے جو اسلحہ ایکٹ پاس کیا ہے، اس کے بعد بغیر لائسنس گن پر کتنی سخت سزا ہو سکتی ہے‘‘۔
مجھے ابتدا میں ظہیر کا یہ اصرار بلا ضرورت لگا تھا، لیکن اب مجھے آہستہ آہستہ اس کا مقصد سمجھ میں آگیا تھا۔ چنانچہ میں نے بظاہر نیم دلی سے کہا ’’شکتی جی، یہ لڑکا بات تو ٹھیک کہہ رہا ہے۔ اب بغیر کاغذات اور خریداری رسید کے ہتھیار رکھنا گردن پھنسوا سکتا ہے۔ اگر پھر بھی دل نہیں مان رہا تو تمہاری مرضی۔ ویسے بھی ہمارے پاس چھوٹے ہتھیاروں کی کوئی کمی نہیں ہے‘‘۔
میرے بالواسطہ دباؤ کے باوجود شکتی فوری آمادہ دکھائی نہ دیا تو میں نے کہا ’’اچھا یار نہ بیچو، کم ازکم دکھا تو دو۔ یشونت بھی دیکھ لے گا کہ گوروں کی فوج میں سروس ریوالور کیسا ہوتا تھا‘‘۔
ظہیر نے میری پُر زور تائید کی تو شکتی نے گویا بادل نخواستہ اپنی واسکٹ کی اندرونی جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک بڑا سا ریوالور نکال کر میرے ہاتھ میں دے دیا۔ اس کے ساتھ ہی مجھے اس کے اب تک ہم سے سودے بازی میں اطمینان کی وجہ بھی سمجھ میں آگئی۔ اسے اعتماد تھا کہ وہ ہماری طرف سے کسی گڑبڑ کی صورت میں اپنے ریوالور کی نوک پر معاملہ سنبھال لے گا۔
میں نے ظہیر کے ساتھ مل کر ریوالور کا جائزہ لیا۔ لندن کی مشہور اسلحہ ساز کمپنی ویبلے اینڈ اسکاٹ کا ساختہ انتہائی نفیس ہتھیار تھا۔ اعشاریہ تین آٹھ بور کا لمبی نال اور ٹھوس پلاسٹک کے دستے والا۔ پسند آنے کے باوجود میں نے محض چند لمحوں تک جائزہ لینے کے بعد وہ شکتی کے حوالے کرتے ہوئے کہا ’’اچھا ہے، لیکن مجھے اسمتھ اینڈ ویسن کا اعشاریہ پینتالیس پسند ہے‘‘۔
اسی لمحے ظہیر نے ضد بھرے لہجے میں کہا ’’لیکن یہ میرے دل کو بھاگیا ہے کنور جی۔ میری بنتی ہے، آپ یہ مجھے دلوا دیں۔ چاہے میری تنخواہ سے کٹوتی کر لینا‘‘۔
میں نے قدرے سختی سے کہا ’’او یار تم عجیب آدمی ہو، جب اگلا بندہ بیچنا ہی چاہتا تو کیا میں زبردستی کروں؟‘‘۔ پھر میں نے عاجزی آمیز لہجے میں شکتی سے کہا ’’شکتی جی، اگر اپنا فیصلہ بدل سکتے ہو تو یہ گن میرے اس جوان کو دے دو۔ چاہے اس کے بدلے بھی ہزار روپے لے لو۔ میں اس کا دل نہیں توڑنا چاہتا۔ یہ بہت کم کوئی فرمائش کرتا ہے‘‘۔
میرے اندازے کے عین مطابق ریوالور کی اصل قیمت سے کم ازکم چار گنا پیشکش نے اثر دکھایا، جبکہ نئے سرکاری اسلحہ ایکٹ کا خوف بھی ہوگا۔ لیکن شکتی نے یہ ظاہر کیا کہ جیسے وہ میرے اصرار سے مجبور ہوکر مجھ پر احسان کر رہا ہے۔ بہرحال اس نے ریوالور ظہیر کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ اس نے نال پر ہاتھ رکھا اور اسے نیچے کی طرف جھکا کر گولیوں کی چرخی کے خانوں پر نظر ڈالی۔ چھ کے چھ خانوں میں اعشاریہ تین آٹھ یعنی نو ایم ایم کی گولیاں موجود تھیں۔ شکتی نے ایک الماری کے خانے سے مزید بیس گولیاں لاکر ظہیر کے حوالے کر دیں۔
میں نے ہزار روپے کے علاوہ مزید ایک سو روپے گن کر شکتی کے حوالے کیے اور اٹھتے ہوئے کہا ’’شکتی جی، ایک بار پھر دھن باد، دل خوش کر دیا تم نے۔ میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بلا جھجک نارائن گڑھ چلے آنا۔ کسی بھی تانگے والے کو کنور مہندر سنگھ بھلا کا نام لو گے تو وہ بغیر کوئی سوال کیے، سیدھا میری جاگیر پر پہنچا دے گا‘‘۔
شکتی نے بھی جی بھر کے احسان مندی کا اظہار کیا اور پھر ظہیر کے ساتھ اٹھوا کر اچھی خاصی بھاری بوری میری جہازی سائز گاڑی کی انتہائی کشادہ ڈگی میں رکھوادی اور نہایت گرم جوشی سے ہمیں رخصت کیا۔ ظہیر نے گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور چند ہی لمحوں بعد ہم نیم پختہ اور تنگ سڑک پر کپورتھلہ کی طرف گامزن تھے۔
میں اس پیچیدہ اور نازک معاملے کی بخیر و خوبی انجام دہی پر خاصا مطمئن تھا۔ تاہم ظہیر تو اپنی خوشی چھپا نہیں پارہا تھا۔ میں نے اسے پہلے اپنے طور پر مسرور ہونے کا پورا موقع دیا۔ بالآخر کپورتھلہ کو پیچھے چھوڑکر ہم جالندھر جانے والی بڑی سڑک پر چڑھے تو میں نے اسے چھیڑا ’’یار، تمہیں پہلی بار اتنا خوش دیکھا ہے۔ یوں لگ رہا ہے تم ابھی پنجاب کی اس سڑک پرگاڑی روک کر بھنگڑا ڈالنے لگو گے‘‘۔
ظہیر نے سرور بھرے لہجے میں جواب دیا ’’ہاں جمال بھائی، بہت دنوں بعد دل میں ایسی ترنگ جاگی ہے۔ دراصل ہم جو کچھ یہاں سے لے جا رہے ہیں، وہ میری توقع سے بہت زیادہ اور بہت عمدہ ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بغیر کسی خون خرابے کے ہاتھ لگ گیا ہے‘‘۔
میں نے کہا ’’ہم اللہ رب العزت کی اس خصوصی کرم نوازی کا جتنا شکر ادا کریں کم ہوگا۔ لیکن تم نے تو یہ ریوالور حاصل کرنے پر سب سے زیادہ زور لگایا ہے!‘‘۔ یہ کہہ کر میں نے قہقہہ لگایا۔ ظہیر نے میرے ساتھ ہنستے ہوئے کہا ’’یار جمال بھائی، تم تو راستے بھر کنور جی بنے، گردن اکڑائے بیٹھے رہے ہو۔ میری ہر ناکے پر سانس رکتی رہی ہے۔ مجھے موت سے تو ڈر نہیں لگتا، لیکن اس طرح خالی ہاتھ، بے بس چوہے کی طرح پکڑے جانا مجھے بالکل گوارا نہیں ہے‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment