احمد نجیب زادے
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی ہٹ دھرمی کے سبب معاشی شٹ ڈائون چوبیسویں روز میں داخل ہوگیا ہے۔ ساڑھے 8 لاکھ سے زائد ملازمین کو تنخواہوں اور واجبات کی ادائیگیاں نہیں ہوپائی ہیں جس سے لاکھوں ملازمین اور ان کے اہل خانہ فاقہ کشی کا شکار ہوچکے ہیں۔ تنخواہوں سے محروم افراد اپنا گھریلو سامان بیچنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ یو ایس اے ٹوڈے نے بتایا ہے کہ ایف بی آئی، سیکورٹی، ہوائی اڈوں کے ملازمین سمیت جیلوں کے گارڈز کو پہلے سال کی اولین تنخواہ ابھی تک نہیں مل سکی ہے، جس سے امریکا بھر میں اضطرابی کیفیت دیکھنے میں آئی ہے۔ آٹھ لاکھ سے زائد فارغ کردیئے جانے والے ملازمین نے مظاہروں کا آغاز کردیا ہے اور امریکی صدر سے کہا ہے کہ ان کو فوری طور پر کام پر لیا جائے کیونکہ ان کے گھروں کے چولہے بجھ چکے ہیں۔ ہزاروں امریکی ملازمین نے گھریلو سامان کی فروخت کیلئے لاکھوں آن لائن اشتہارات پوسٹ دیئے ہیں، جن کو ’’شٹ ڈائون اسپیشل‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ ایسی سائٹس پر بے روز گار اور جبری طور پر برطرف کئے گئے ملازمین نے بچوں کے کھلونوں، گھریلو آرائشی اشیا، سائیکل، ٹی وی، کمپیوٹرز، لیپ ٹاپ، پردے اور الماریاں بیچنا شروع کردی ہیں اور ان کی معمولی قیمتیں طلب کی ہیں۔ کئی اشتہار کنندگان کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے بینکوں کے قرضوں سمیت یوٹیلٹی بلز اور اسکول فیسوں کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ پاکستان کی olx طرز کی امریکی ویب سائٹ ’’کریگ سائٹ‘‘ پر ہزاروں اشیا برائے فروخت دی گئی ہیں اور ان کے اشتہار کنندگان کا دعویٰ ہے کہ وہ مجبوری کے عالم میں گھریلو سامان سستے داموں فوری فروخت کیلئے پیش کر رہے ہیں۔ کریگ سائٹ پر شٹ ڈائون کے سبب 99 ڈالر کی سائیکل کو محض12 ڈالر میں بیچا جارہا ہے۔ ادھر امریکا کے میامی انٹرنیشنل ایئر پورٹ کا ایک ٹرمینل محض اس لئے بند کردیا گیا ہے کہ یہاں تعینات سیکورٹی ایجنٹس کو بلاتنخواہ جبری رخصت دیدی گئی ہے، جبکہ انتہائی ضروری پوسٹوں کیلئے درکار ایجنٹس کو بلا تنخواہ فرائض کی انجام دہی کیلئے طلبی کے نوٹس دئے گئے ہیں۔ لیکن ناراض سیکورٹی ملازمین نے کام پر آنے کے بجائے ناسازی طبع کا بہانہ بنادیا ہے۔ واشنگٹن سمیت متعدد ریاستوں میں فوڈ بینکوں اور خیراتی اداروں نے ضرورت مندوں کیلئے غذائی اشیا کی پیکنگ کا کام ہنگامی بنیادوں پر شروع کردیا ہے۔ مقامی جریدے یو ایس اے ٹوڈے کی جانب سے کہا گیا ہے کہ کئی ایک بڑے فوڈ بینکوں نے تسلیم کیا ہے کہ حالات سنگین ہیں اور شٹ ڈائون کے متاثرہ خاندانوں کیلئے انہوں نے لاکھوں کی تعداد میں فوڈ پیکٹ بنائے ہیں، لیکن انہیں خدشہ ہے کہ اگر شٹ ڈائون مزید وسعت پاتا ہے تو ہمارے پاس متاثرہ خاندانوں کے پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے مزید غذائی سپلائی نہیں ہوگی۔ واشنگٹن ٹائمز نے بتایا ہے کہ متعدد شہروں میں شٹ ڈائون کا شکار وفاقی ملازمین کے اہل خانہ نے ’’بیروزگاری الائونس‘‘ کے حصول کی خاطر درخواست فارمز بھرے ہیں۔ امریکی حکومت کے تحت کارگزار 15 وزارتوں میں سے 9 وزارتوں میں کام جزوی طور پر معطل ہے اور 3 لاکھ 80 ہزار ملازمین کو جبری رخصت سے واپس نہیں بلوایا جاسکا ہے، جبکہ چار لاکھ بیس ہزار وفاقی ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگیوں کیلئے فنڈز نہیں ہیں۔ ہزاروں وفاقی ملازمین نے سوشل سائٹس پر اپنی خالی پے سلپ کی تصاویر شیئر کی ہیں اور دوستوں سے دعائوں کی اپیل کی ہے، کیونکہ ان کو تنخواہ نہ ملنے سے گھریلو مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق سینکڑوں وفاقی ملازمین نے ٹرمپ اور ان کے شٹ ڈائون کیخلاف وائٹ ہائوس کے سامنے مظاہرہ کیا ہے اور تنخواہوں کی ادائیگیوں سمیت کام پر واپس بلوانے کے مطالبات کئے ہیں۔ این پی آر جریدے نے بتایا ہے کہ تنخواہیں نہ ملنے کے سبب ملازمین کو قرضوں کی ادائیگیوں، بچوں کی اسکول فیس سمیت دیگر سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا کے ماہرین اور انجینئرز اور سائنس دانوں نے تصدیق کی ہے کہ وہ ادھار خوراک خرید رہے ہیں کیوں کہ ان کے پاس نقد ادائیگیوں کیلئے تنخواہ نہیں ہے۔ سینئر امریکی سیکورٹی حکام نے تسلیم کیا ہے کہ شٹ ڈائون کے نتیجہ میں پولیس کی سرحدات پر پیٹرولنگ کا عمل بھی موقوف کردیا گیا ہے جبکہ متعدد بڑے پارکس، میوزیمز کو بھی عوامی داخلہ کیلئے بند کردیا گیا ہے۔ ایک ہزار سے زیادہ ان خاندانوں نے اپنے گھر چھن جانے کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ جن کو انہوں نے بینکوں سے سود کی ادائیگیوں کے عوض خریدا تھا لیکن شٹ ڈائون کے نتیجہ میں وہ گھر کی ماہانہ ادائیگیاں نہیں کر پائے ہیں۔ جبکہ ورجینیا سمیت متعدد ریاستوں میں کسانوں نے صدر ٹرمپ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شٹ ڈائون کو ختم کریں تاکہ انہیں اپنی فصلوں کی اُگائی کیلئے درکار بیجوں کو خریداری کیلئے رقم مل سکے۔ سی این بی سی نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ اگر امریکی حکومتی تعطل یا شٹ ڈائون دو ہفتے مزید چلا تو امریکی قوم کو6 ارب ڈالر کا ٹیکا لگ جائے گا اور یہ رقم صدر ٹرمپ کی میکسیکو کی دیوار کی تعمیر کیلئے مانگی جانے والی رقم سے بھی زیادہ ہوگی۔ سی این بی سی کے معاشی تجزیہ نگار یوآن لی نے بتایا ہے کہ بائیس روزہ شٹ ڈائون میں امریکی معیشت کو تین ارب ساٹھ کروڑ ڈالر کا خسارہ ہوچکا ہے۔ امریکی جریدے سان فرانسسکو کرونیکل نے بتایا ہے کہ بائیس دسمبر سے ہونے والے حکومت امریکا کے معاشی شٹ ڈائون سے نو وزارتوں کا معمول کا آپریشن معطل کیا جاچکا ہے اور وزارت تجارت، وزارت خزانہ، وزارت انصاف، وزارت داخلہ، وزارت زراعت سمیت قومی سلامتی کے امور سے متعلق داخلی سلامتی کے متعدد اداروں کو بند کیا جاچکا ہے کیونکہ ان اداروں کے ملازمین کے مشاہروں کی مد میں کوئی رقم خزانہ میں موجود نہیں ہے، جس کی وجہ سے لاکھوں ملازمین میں امریکی صدر کے تئیں نفرت اور مخالفت بڑھ رہی ہے۔ متعدد ریاستوں میں امریکی وفاقی ملازمین نے امریکی صدر ٹرمپ کیخلاف مظاہرے کئے ہیں۔ ایسے ہی ایک مظاہرے میں شریک ملازمہ لنڈسے گراہم کا کہنا تھا کہ امریکی ملازمین ایک دیوارسے بھی گئے گزرے ہیں جن کے اہل خانہ فاقہ کشی پر مجبور ہیں لیکن صدر کو ہمارے بچوں اور ہماری زندگیوں کی پروا نہیں اور وہ دیوار کیلئے پونے چھے ارب کی رقم کی خاطر ہماری روزی پر لات ماررہے ہیں۔ کئی ملازمین کا استدلال تھا کہ وہ کام پر موجود ہیں لیکن انہیں تنخواہیں نہیں دی جارہی ہیں۔ امریکی میڈیا نے بتایا ہے کہ کانگریس کی جانب سے شٹ ڈائون کے خاتمہ کا مطالبہ صدر ٹرمپ نے رد کردیا ہے جس کی وجہ سے کانگریس کے منظور شدہ مالیاتی بلز کے باوجود وفاقی ملازمین اور جبری رخصت کے شکار آٹھ لاکھ امریکی ملازمین کیلئے ادائیگیاں نہیں کی جاسکی ہیں۔ صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ شٹ ڈائون کی نسبت دیوار میکسیکو کی تعمیر میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ لاس اینجلس ٹائمز نے بتایا ہے کہ شٹ ڈائون امریکی تاریخ کا بد ترین اثرات والا شٹ ڈائون ہے اور اگر چہ 1990ء کی دہائی میں امریکی صدر بل کلنٹن کے دور صدارت میں 21 روز پر مشتمل شٹ ڈائون تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ لیکن اس وقت وفاقی ملازمین کی حالت اس قدر پتلی نہیں ہوئی تھی جیساکہ اب محسوس کی جارہی ہے۔ یو ایس کانگریس سے ایک ڈیمو کریٹس رکن نے دعویٰ کیا ہے کہ ٹرمپ کی ہٹ دھرمی نے لاکھوں گھروں کے چولہے بجھا دیئے ہیں اور اگر چہ کہ ڈیموکریٹس کی اکثریتی کانگریس کی جانب سے صدر کی میز پر کئی بلز بھجوائے جاچکے ہیں لیکن صدر ٹرمپ نے ان بلوں پر دستخط سے انکار کردیا ہے اور کہا ہے کہ وہ میکسیکو کی سرحد پر دیوار کو ہنگامی بنیادوں پر تعمیر کرنا چاہتے ہیں اور اس کیلئے اگر ان کو پانچ ارب ستر کروڑ ڈالر کی رقم نہیں فراہم کی گئی تو وہ کانگریس کی جانب سے کسی بھی قسم کے مالیاتی بلز پر دستخط نہیں کریں گے۔
٭٭٭٭٭