عمران خان
کراچی پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے جنونی ملزم نے 25 کم سن بچیوں سے زیادتی کا اعتراف کرلیا۔ ملزم امجد 2012ء سے ان وارداتوں میں ملوث ہے۔ اس نے کراچی کے علاوہ پنجاب میں بھی بچیوں کو درندگی کا نشانہ بنایا۔ ملزم کو گرفتار کرنے کیلئے کی گئی تحقیقات میں 200 سے زائد مشکوک افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ کرائے گئے۔ تاہم ملزم کے ڈی این اے کے نمونے کراچی میں 5 متاثرہ کمسن بچیوں کے کیس میں میچ کرگئے۔ جبکہ پنجاب سے آنے والی پولیس ٹیم نے جب ملزم کے منہ سے لعاب حاصل کرکے اس کے ڈی این اے ٹیسٹ کو پنجاب میں بچیوں سے ہونے والی زیادتیوں کے کیسوں میں میچ کیا تو پنجاب میں بھی 4 کمسن بچیوں کے کیس حل ہوگئے۔ اس کو ٹیسٹ کیس قرار دیکر اس کی تفتیش ملیر انوسٹی گیشن پولیس کے دو ڈی ایس پیز علی حسن شیخ اور خالد خان کو سونپی گئی۔ ذرائع کے مطابق تحقیقات میں سندھ پولیس کے روایتی فرسودہ نظام اور اعلیٰ افسران کی غیر سنجیدگی کا پول پوری طرح کھل کر سامنے آیا۔ سابق آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے ملزم کی گرفتاری پر 5 لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا تھا، جو کہ کیس حل کرنے والے افسران کو اب تک نہیں ملا ہے۔ جبکہ سابق ڈی آئی جی ایسٹ ذوالفقار لاڑک نے جب دیکھا کہ کیس پر اٹھنے والے اخراجات لاکھوں میں ہیں، تو انہوں نے کیس پر مامور تفتیشی افسران کو یقین دہانی کرائی کہ وہ اخراجات کی وجہ سے پیچھے نہ ہٹیں بلکہ کیس حل ہونے پر وہ اپنی جانب سے 5لاکھ روپے بھی دیں گے، جس کے بعد اس کیس کو حل کرنے کیلئے مجموعی طور پر تفتیشی افسران نے 3 لاکھ روپے سے زائد کے اخراجات اپنی جیب سے ادا کئے۔ تاہم نہ آئی جی کی جانب سے اعلان کردہ انعامی رقم تفتیشی افسران کو ملی اور نہ ہی ڈی آئی جی کی جانب سے ایک پائی ادا کی گئی۔
ملیر انوسٹی گیشن پولیس نے گزشتہ برس اپریل میں ایک کارروائی میں بچیوں سے زیادتی کے کیس میں ملوث اہم ملزم امجد کو گرفتار کیا۔ ملزم کی گرفتاری کے حوالے سے ڈی آئی جی ایسٹ ذوالفقار علی لاڑک نے بتایا تھا کہ ملیر میں کافی عرصے سے شکایات آرہی تھیں کہ کمسن بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ان واقعات میں تیزی آئی تو پولیس کی ایک خصوصی ٹیم بنائی گئی۔ جس کی تحقیقات میں 5 کیسز ایسے سامنے آئے جن میں ڈی این اے سے واضح ہوا کہ ان میں ایک ہی ملزم ملوث ہے۔ ڈی آئی جی نے مزید بتایا کہ 2015ء ، 2016ء -17 اور 2018ء کے فروری میں واقعات رپورٹ ہوئے۔ تاہم ملزم کی گرفتاری میں ڈی این اے کی وجہ سے بہت مدد ملی اور کامیاب کارروائی کے دوران اہم ملزم امجد علی کو گرفتار کرلیا گیا۔ ملزم ایک گارمنٹ فیکٹری میں ملازم تھا اور وہیں رہتا تھا، اس کا تعلق پنجاب سے ہے۔
پولیس ذرائع کے بقول اس وقت ملزم امجد علی جیل میں ہے اور اس پر درج مقدمات کا کیس عدالت میں چل رہا ہے۔ اس اہم ترین کیس سے جڑے بہت سے حقائق اب تک منظر عام پر نہیں آسکے۔ ذرائع کے بقول 2018ء کے شروع میں ملیر کے مختلف تھانوں شاہ لطیف، اسٹیل ٹائون، میمن گوٹھ، سکھن اور بن قاسم تھانوں کی حدود میں واقع کچی بستیوں اور گوٹھوں میں بچیوں کے اغوا اور ان سے زیادتی کے واقعات میں ایک دم اضافہ ہوگیا تھا۔ اس دوران دو ماہ ایسے بھی آئے کہ ان علاقوں میں بچیوں کے اغوا اور زیادتی کے پے در پے واقعات ہوئے۔ جس پر پولیس کی کارکردگی پر سوال اٹھنے لگے اور ان آبادیوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ شہریوں نے اپنے بچوں کا گھروں سے باہر نکالنا بند کردیا تھا۔ جس پر سابق آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے اس وقت کے ڈی آئی جی ایسٹ ذوالفقار علی لاڑک کو خصوصی احکامات جاری کئے کہ ان واقعات میں ملوث ملزمان کے خلاف تیز ترین تفتیش کرکے کیسوں کو حل کیا جائے۔ جس پر ملیر انوسٹی گیشن کے دو سینئر ڈی ایس پیز علی حسن شیخ اور خالد خان پر مشتمل تحقیقاتی ٹیم قائم کی گئی۔ ذرائع کے بقول جن آبادیوں میں زیادتی کے واقعات پیش آئے تھے، تحقیقاتی ٹیم نے وہاں تفتیش کیلئے دستیاب وڈیو کیمروں کی فوٹیجز اور ہیومن انٹیلی جنس سے مدد حاصل کی۔ اس دوران 500 سے زائد مشکوک افراد سے تفتیش کی گئی اور ان میں سے 200 سے زائد افراد کو مشتبہ قرار دیکر ان کے ڈی این اے سیمپل حاصل کرکے ٹیسٹ کرائے گئے۔ ذرائع کے بقول اسی دوران آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کی جانب سے ملزمان کی گرفتاری کیلئے 5 لاکھ روپے کے انعام کا بھی اعلان کردیا گیا تھا۔ تاہم تحقیقات پر اٹھنے والے اخراجات لاکھوں میں تھے، جو کہ اعلیٰ پولیس افسران کی جانب سے اس وقت بھی ادا نہیں کئے گئے تھے، بس ملزمان کو گرفتار کرنے کیلئے ماتحت افسران پر دبائو بڑھایا جا رہا تھا۔ ذرائع کے بقول جب اخراجات کی وجہ سے تفتیشی افسران بھی کچھ سست ہوئے تو اس وقت کے ڈی آئی جی ذوالفقار علی لاڑک نے انہیں یقین دہانی کرائی کہ جتنے اخراجات آتے ہیں کھلے دل سے کئے جائیں۔ وہ تمام اخراجات کے علاوہ پانچ لاکھ روپے اپنی جانب سے بھی دیں گے، کیونکہ یہ سندھ پولیس کی رپوٹیشن کا معاملہ ہے۔ ذرائع کے مطابق ان تمام کوششوں کے باجود اصل ملزم ہاتھ نہیں آیا تو تفتیشی افسران کو بھی کچھ مایوسی ہوئی۔ لیکن اسی دوران قدرت کی جانب سے معجزہ ہوا کہ اصل ملزم اچانک پولیس کے ہاتھ لگ گیا۔ ہوا یوں کہ اپریل میں ہی ملزم امجد نے شاہ لطیف ٹائون کے علاقے میں ایک کچی بستی سے 7 سالہ بچی کو بہلا پھسلا کر اغوا کیا اور اس کو آبادی سے باہر نکالنے میں بھی کامیاب ہوگیا۔ تاہم شاہ لطیف ٹائون میں مل ایریا سے گزرتے ہوئے اس بچی کو اپنا ایک عزیز گزرتا ہوا نظر آیا، جس کو دیکھ کر بچی نے چیخنا چلانا شروع کردیا۔ ملزم امجد بچی کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اس کو تیزی سے آگے لے گیا۔ یہ دیکھ کر کچھ افراد ملزم امجد کے پیچھے لگ گئے، اس وقت تک بچی کے والد اور دیگر رشتے دار بھی اس کو تلاش کرنے کیلئے بستی سے نکل پڑے تھے۔ ان لوگوں کا ایک دوسرے سے موبائل فون پر رابطہ ہوا تو بچی کو لیکر جانے والے ملزم امجد کی اطلاع سب کو مل گئی۔ جس پر علاقہ پولیس کو بھی اطلاع دی گئی۔ یہ اطلاع بچیوں سے زیادتی کیس پر کام کرنے والی تفتیشی ٹیم کو بھی ملی۔ جس پر دونوں افسران اپنی ٹیم کے ہمراہ اس علاقے میں پہنچ گئی اور آدھے گھنٹے کی تلاش کے بعد ملزم امجد کو گرفتار کرکے بچی کو تحویل میں لے لیا گیا۔
ذرائع کے مطابق اس واقعہ کے بعد جب ملزم امجد سے تفتیش کا آغاز کیا گیا تو انتہائی ہولناک انکشافات سامنے آنا شروع ہوگئے، جنہیں ثبوت اور شواہد میں ڈھالنے کیلئے ملزم کا اعترافی بیان لینے کے بعد اس کے ڈی این اے ٹیسٹ کے نمونے لئے گئے، جو گزشتہ دو سے تین ماہ کے دوران زیادتی کا نشانہ بننے والی بچیوں کے کیسوں میں حاصل کردہ نمونوں سے میچ کر گئے۔ جبکہ اس وقت تک تحقیقات میں کئی مقامات سے ایسی وڈیوز بھی پولیس کو مل چکی تھیں جن میں شامل مشکوک افراد میں ملزم امجد کی موجودگی بھی پائی گئی۔ ایسی تصاویر سامنے آئیں جن میں ملزم امجد ملیر کی آبادیوں میں کھیلتے ہوئے بچوں کے پاس کھڑا ہوا پایا گیا۔ ذرائع کے بقول اس کیس کو سندھ کی تاریخ کا سب سے بڑا کیس قرار دیا گیا، کیونکہ آج تک کسی ایک ملزم نے اتنی زیادہ بچیوں سے زیادتی کا اعتراف نہیں کیا اور نہ ہی کسی ملزم کے ڈی این کی رپورٹ 9 سے 10بچیوں سے زیادتی کیسوں میں میچ ہوئی ہے۔
ملزم امجد نے تحقیقات میں انکشاف کیا کہ اس کا آبائی تعلق پنجاب سے ہے اور وہ 2012ء سے وارداتیں کررہا تھا۔ ملزم کراچی کی لیبر کالونی میں اکیلا رہتا تھا اور قریب واقع ایک گارمنٹ کمپنی میں مشین فٹر کی حثیت سے ملازمت کرتا تھا۔ ملزم نے انکشاف کیا کہ وہ 2012ء میں ایک بچی سے زیادتی کیس میں گرفتار ہوا تھا۔ تاہم پولیس کے ناقص سسٹم کی وجہ سے باہر آنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ تفتیش میں یہ بھی معلوم ہوا کہ ملزم نے کراچی پولیس کے کرائم رجسٹریشن آفس (CRO) میں بھی پولیس کی غفلت کی وجہ سے غلط اندراج کرایا تھا، یہی وجہ ہے کہ حالیہ کیسوں کی تفتیش کیلئے جب پولیس کی تفتیشی ٹیم نے ماضی میں بچیوں سے زیادتی کے کیسوں میں ملوث ملزمان کا ڈیٹا حاصل کیا تو اس میں ملزم کا 2012ء میں گرفتاری کا ریکارڈ سامنے نہیں آسکا تھا۔ کیونکہ اس ریکارڈ میں ملزم کی تصویر اصلی تھی لیکن شناختی کارڈ نمبر اور نام وغیرہ غلط لکھا تھا۔ جس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پولیس کے تفتیشی شعبے کے علاوہ کرائم رجسٹریشن آفس میں بھی خامیاں موجود ہیں، جن سے ملزمان کو بھرپور فائدہ پہنچتا ہے۔
٭٭٭٭٭