جن دنوں حضرت حسن بصریؒ بصرہ میں آباد ہوئے۔ اسلامی شہروں میں یہ شہر علوم و فنون کا سب سے بڑا مرکز تصور کیا جاتا تھا، اس کی مرکزی مسجد صحابہ کرامؓ اور تابعین عظامؒ سے بھری رہتی تھی۔ مسجد کا ہال اور صحب مختلف علم و فنون کے حلقوں سے آباد تھا۔
حضرت حسن بصریؒ امت محمدیہ کے بہترین اور زبردست عالم دین مفسر قرآن حضرت ابن عباسؓ کے حلقہ درس میں شامل ہوئے اور ان سے تفسیر، حدیث اور تجوید کا علم حاصل کیا۔ فقہ، لغت اور ادب جیسے علوم دیگر صحابہؓ سے حاصل کئے، یہاں تک کہ یہ ایک مضبوط عالم دین اور فقیہ کے مرتبہ کو پہنچے، علم میں پختگی کی وجہ سے عام لوگ کثرت سے ان کی طرف متوجہ ہوئے۔
لوگ ان کے پاس بیٹھ کر خاموشی سے ایسے مواعظ سنتے، جس سے پتھر دل بھی موم ہو جاتے اور گنہگار آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑتے۔
آپ کی زبان سے نکلنے والی حکمت و دانائی کی باتوں کو لوگ سرمایہ حیات سمجھتے ہوئے اپنے دلوں میں محفوظ کرلیتے اور آپؒ کی قابل رشک سیرت کو اپنانے کے لیے ہر وقت کوشش میں لگے رہتے۔
صفات حسنہ:
حضرت حسن بصریؒ کا نام پورے ملک میں مشہور ہو گیا۔ لوگ اپنی مجلسوں میں ان کا ذکر خیر کرنے لگے، حکمران ان کی خیریت دریافت کرنا اپنے لیے سعادت سمجھتے، ان کے دن رات کے معمولات سے باخبر رہنے کی دلی خواہش رکھتے تھے۔
حضرت خالد بن صفوانؒ بیان کرتے ہیں:
میں عراق کے ایک قدیم شہر ’’حیرہ‘‘ میں بنوامیہ کے جرنیل اور فاتح قسطنطنیہ مسلمہ بن عبد الملک سے ملا اور انہوں نے مجھ سے دریافت کیا:
خالد! مجھے حسن بصری کے متعلق کچھ بتاؤ، میرا خیال ہے اسے جتنا تم جانتے ہو، اتنا کوئی اور نہیں جانتا؟
میں نے کہا: ’’ان کا باطن ظاہر جیسا ہے، ان کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا، جب وہ کسی کو نیک کام کا حکم دیتے ہیں، پہلے خود اس پر عمل کرتے ہیں۔ جب کسی کو برائی سے روکتے ہیں، تو وہ خود بھی اس برائی کے قریب نہیں جاتے۔ میں نے دنیاوی مال و دولت سے انہیں بالکل بے فکر و بے نیاز پایا، جو ان کے پاس علم و تقویٰ کا خزانہ ہے، لوگ اسے حاصل کرنے کے لیے کثرت سے ان کی طرف لپکتے ہیں اور ان سے بہت محبت کرتے ہیں۔ یہ سب باتیں سن کر جرنیل مسلمہ بن عبد الملک پکار اٹھے:
’’خالد! اب بس کیجئے، اتنا ہی کافی ہے۔ بھلا وہ قوم کیسے گم راہ ہو سکتی ہے جس میں حسن بصریؒ جیسی عظیم المرتبت شخصیت موجود ہو۔‘‘
حجاج بن یوسف کی مخالفت:
جب حجاج بن یوسف ثقفی عراق کا گورنر بنا اور اس نے اپنے دور حکومت میں ظلم و تشدد کی انتہا کردی… تو حضرت حسن بصریؒ ان گنے چنے چند اشخاص میں سے ایک تھے، جنہوں نے اس کی سرکشی اور ظلم و جبر کو آگے بڑھ کر روکا، اس کے برے کاموں کی ڈٹ کر مخالفت کی اور حق بات ڈنکے کی چوٹ سے اس کی منہ پر کہی۔
حجاج بن یوسف نے واسط شہر میں اپنے لیے ایک عالی شان محل تعمیر کروایا، جب اس کی تعمیر مکمل ہوگئی تو اس نے افتتاحی تقریب میں لوگوں کو دعوت عام دی، تاکہ وہ عظیم الشان محل کو دیکھیں، اس کی سیر کریں، خود اپنی زبان سے تعریف کریں اور دعائیہ کلمات سے نواز دیں۔
حضرت حسن بصریؒ کے دل میں خیال آیا کہ اس سنہری موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے، وہ یہ نیت لے کر گھر سے نکلے کہ آج لوگوں کو نصیحت کریں گے، انہیں دنیاوی مال و دولت سے بے رغبتی اختیار کرنے کا درس دیں گے اور جو حق تعالیٰ کے ہاں انعامات ہیں، انہیں حاصل کرنے کی ترغیب دیں گے۔
جب آپ موقع پر پہنچے تو دیکھا کہ لوگ اس عالی شان اور بلند و بالا محل کے چاروں طرف جمع ہیں اور عمارت کی خوب صورتی پر حیران، اس کی وسعت پر دانتوں میں انگلی دبائے اور اس کی سجاوٹ و ڈھنگ سے مرعوب نظر آتے ہیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭