مسند احمد میں حضرت بریدہؓ سے روایت ہے:
’’جب حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ کیلئے نکاح کا پیغام دیا تو رسول اقدسؐ نے فرمایا: ’’شادی کیلئے ولیمہ ضروری ہے‘‘ اس پر حضرت سعدؓ نے عرض کیا: میں ایک بکری کی ذمہ داری لیتا ہوں اور فلاں نے کہا کہ میرے ذمے اتنی اور اتنی مکئی ہے۔‘‘ (مسند احمد، مجمع الزوائد)
سیدنا سعید بن جبیرؒ کہتے ہیں:
’’مجھ سے حضرت ابن عباسؓ نے پوچھا کہ کیا تم نے شادی کر لی ہے؟ میں نے جواب دیا نہیں، تو انہوں نے فرمایا تو پھر تم شادی کرہی لو، اس لئے کہ اس امت کے بہترین فرد (یعنی نبی اکرمؐ) بہت سی بیویوں والے تھے۔‘‘ (بخاری کتاب النکاح، مسند احمد)
میسرہؒ کہتے ہیں کہ مجھ سے امام طاؤوسؒ نے کہا:
’’تم ضرور شادی کر لو، ورنہ میں تم سے وہی بات کہوں گا، جو سیدنا عمرؓ نے ابو الزوائر سے کہی تھی کہ تو شادی یا تو اس لئے نہیں کر رہا ہے کہ تو نامرد ہے یا پھر تو بدکار ہے۔‘‘ (البیان و التبیین)
شادی میں مہر عورت کا حق ہے۔ لیکن اس کی گرانی نکاح کے لئے رکاوٹ بن سکتی تھی، اس لئے شریعت نے اس میں سادگی کا درس دیا ہے۔ مہر کم سے کم اور آسان سے آسان مقدار مہر متعین کرنے کی تلقین کی گئی۔ نبی اکرمؐ کا ارشاد ہے :
’’بہترین حق مہر وہ ہے جسے ادا کرنا انتہائی آسان ہو۔‘‘ (ابوداؤد کتاب النکاح)
اور آپؐ کا ارشاد ہے: ’’مبارک عورت وہ ہے، جس سے منگنی کرنا آسان ہو اور جس کا مہر دینا آسان ہو۔‘‘ (ابن حبان، سنن بیہقی)
نبی اکرمؐ نے ایک صحابیؓ سے دریافت فرمایا کہ تم نے کتنے مہر پر شادی کی ہے؟ صحابیؓ نے بتایا کہ چار اوقیہ (ایک سو ساٹھ درہم) پر، تو آپؐ نے (گویا ناراضگی کے ساتھ) فرمایا: ’’چار اوقیہ پر؟ گویا تم اس پہاڑ کے دامن سے چاندی تراشتے ہو! ہمارے پاس کچھ نہیں ہے کہ ہم تمہیں دیں۔‘‘ (مسلم)
قولی اور زبانی ترغیب و تحریض کے ساتھ آپؐ نے آسان سے آسان مہر مقرر کرنے کا عملی نمونہ بھی پیش فرمایا۔ سیدنا سہل بن سعد ساعدیؓ روایت کرتے ہیں :
’’ایک خاتون رسول اقدسؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کرنے لگی کہ حضور! میں خود کو آپ کے لئے ہبہ کرنے آئی ہوں۔ نبی اکرمؐ نے نگاہ اوپر نیچے کر کے دیکھا، پھر اپنا سر جھکا لیا۔ عورت نے جب اپنے بارے میں آپؐ سے کوئی فیصلہ کن بات نہیں سنی تو وہیں بیٹھ گئی۔ کچھ دیر بعد ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کرنے لگے: حضور! اگر آپ کو اس عورت کی حاجت نہیں تو اس کا نکاح مجھ سے کر دیجئے۔ آپؐ نے فرمایا: تمہارے پاس (بطور مہر دینے کیلئے) کچھ ہے؟ اس نے عرض کیا: حضور! خدا کی قسم! میرے پاس کچھ نہیں ہے، آپؐ نے فرمایا ’’جاؤ اپنے گھر جا کر دیکھو، ممکن ہے کوئی چیز مل جائے۔‘‘
وہ گھر گیا اور واپس آ کر عرض کرنے لگا: خدا کی قسم! میں نے کچھ بھی نہ پایا، آپؐ نے فرمایا: جا کر دیکھو، گو کہ لوہے کی کوئی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو؟ وہ پھر گیا اور واپس آ کر عرض کیا: خدا کی قسم! کوئی انگوٹھی بھی نہیں ہے، ہاں یہ میرا ازار (تہبند) ہے، آدھا اس میں سے عورت کو دے سکتا ہوں، اس کی یہ بات سن کر آپؐ نے فرمایا ’’بھلا تمہارے اس ازار سے کیا بننے والا ہے، اگر تم اسے پہنو تو اس کے لئے کچھ نہ بچے گا اور اگر وہ پہنے تو تمہارے لئے اس میں کچھ نہیں رہ جائے گا؟‘‘
آپؐ کی یہ بات سن کر وہ بیٹھ گیا اور تھوڑی دیر کے بعد اٹھ کر چلنے لگا۔ آپؐ نے اسے جاتے ہوئے دیکھا تو اسے بلانے کا حکم فرمایا، جب وہ آ گیا تو آپؐ نے پوچھا تمہیں قرآن کا کونسا حصہ یاد ہے؟ اس نے عرض کیا: مجھے فلاں اور فلاں سورتیں یاد ہیں۔
آپؐ نے پوچھا ’’کیا تم ان سورتوں کو اپنی یاد سے پڑھ سکتے ہو؟‘‘ اس نے کہا ہاں تو آپؐ نے فرمایا ’’تو پھر جاؤ، میں نے جو سورتیں تمہیں یاد ہیں، ان کے عوض اس عورت سے تمہارا نکاح کر دیا۔‘‘ (بخاری کتاب النکاح، مسلم)
نبی اکرمؐ نے اس شخص کی خواہش نکاح کوسمجھتے ہوئے نکاح کیلئے آسان سے آسان تر صورتِ مہر نکال کر امت کیلئے یہ اسوہ پیش فرمایا کہ شادی کو آسان کرو، تاکہ شادی کی خواہش رکھنے والا کوئی شخص اپنی خواہش نفس سے مغلوب ہو کر غلط کاری کی راہ پر چل کر اپنی عاقبت کی بربادی اور کسی عصمت مآب کی عفت کی تارتاری کے ساتھ سماج و معاشرہ کیلئے زنا کاری و بدکاری کی لعنت وشرمساری کا نمونہ نہ چھوڑ جائے۔
ابوداؤد اور ترمذی وغیرہ کی روایت کے مطابق امیر المؤمنین عمر فاروقؓ نے (اپنے زمانہ خلافت میں غالباً جب لوگوں کو گرانقدر مہر باندھتے دیکھا تو)اپنے ایک خطبہ میں فرمایا:
’’خبردار! عورتوں کے مہر بڑھا چڑھا کر مت باندھو، اس لئے کہ اگر یہ(مہر کی زیادتی) دنیا میں عزت اور خدا کے ہاں تقویٰ کا باعث ہوتی تو نبی اکرمؐ اس کے تم میں سب سے زیادہ حقدار تھے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭