دانشمند ماں کا بیٹے کو جواب

شیر شاہ سوری کا اقبال جوں جوں بڑھ رہا تھا، بابر کا بیٹا شہنشاہ ہمایوںنکبت ومصائب کا شکار ہو رہا تھا۔ انہی دنوں مرزا ہندال اس کے بھائی نے خود باد شاہ بننے کا ارادہ کیا۔ ہمایوں نے شیخ بہلول ایک بزرگ کو مرزا کے پاس بھیجا کہ اس کو سمجھا کر اس فساد سے باز رکھے اور سمجھائے کہ اس وقت ہمیں اپنی متفقہ طاقت سے دشمن کا مقابلہ کرنا چاہیے نہ کہ گھر ہی پھوٹ ڈال دیں۔
مرزا کے پاس خوشامدیوں کا جمگھٹا تھا، کوئی قلمدان وزارت کے خواب دیکھ رہا تھا، کسی کو جاگیروں کی تو قع تھی، کوئی سپہ سالاری کا خواستگار تھا۔ ان کے کہنے سے مرزا نے شیخ کو قتل کرا دیا اور اپنے نام کا خطبہ پڑھوایا۔
مرزا کی ماں اغاچہ بیگم کو خبر ہوئی، بیٹے کی خود سری پر بہت افسوس کیا۔ بیٹا جب بادشاہ بن کر دعائے خیر اور مبارکباد لینے کے لیے ماں کے پاس آیا تو دیکھا کہ وہ ماتمی لباس پہنے بیٹھی ہے۔ مرزا نے کہا کہ اس خوشی میں یہ ماتمی لباس کیوں پہنا ہے؟
ماں نے کہا کہ فتنہ سازوں اور ناعاقبت اندیشوں کی جماعت نے تجھ کو راہ صواب سے گمراہ کر کے ہلاکت و لعنت کے گڑھے میں دھکیل دیا ہے۔ اس لیے تیرے ماتم میں، میں نے پہلے ہی ماتمی لباس پہن لیا ہے، چنانچہ آخر وہی ہوا جو دانش مند ماں نے کہا تھا۔
خانہ کعبہ کی ہمسائیگی میں بینائی کی واپسی
ایک خاتون جس کی عمر 27 برس تھی، ایک حادثے کی وجہ سے اس کی بینائی جاتی رہی۔ اچھے سے اچھے اسپتال میں اس کا علاج ہوا، لیکن کوئی افاقہ نہ ہوا۔ وہ خاتون ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال منتقل ہوتی رہی، لیکن ہر جگہ سے مایوس لوٹنا پڑا۔ خدا کے کسی نیک بندے نے ان سے کہا: آپ لوگ یوں مارے مارے پھر رہے ہیں، اس دربار سے کیوں رجوع نہیں کرتے جہاں سے کوئی ناکام نہیں لوٹتا۔ آپ مکہ مکرمہ جائیں، عمرہ کریں، زمزم پئیں اور رب سے دعا کریں کہ وہ خاتون کی بینائی لوٹا دے۔ یہ بات اس خاتون کے دل کو لگی اور فوراً اس کے لیے تیار ہو گئی۔
اس نے خانہ کعبہ میں جی بھر کر دعائیں اور التجائیں کیں۔ اس خاتون کے ایک قریبی عزیز نے بتایا کہ ایک دن وہ کعبہ شریف کا طواف کر رہی تھی۔ طواف کے دوران وہ گر گئی، جب اس نے اپنے حواس پر قابو پایا اور کھڑی ہوئی تو کعبہ اس کی نظروں کے سامنے تھا۔ اس کے عزیز و اقارب بھی اسے نظر آنے لگے۔ رب تعالیٰ نے اس کی التجائوں کو قبول کرلیا تھا۔
(دعائوں کی قبولیت۔ از عبد المالک مجاہد)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment