قسط نمبر37
سیدنا حسن بصریؒ نے حجاج بن یوسف کا محل دیکھ کر وہاں لوگوں کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا:
’’ہمیں یہ معلوم ہے کہ فرعون نے اس سے زیادہ مضبوط، خوب صورت اور عالی شان محلات تعمیر کئے تھے، لیکن حق تعالیٰ نے فرعون کو ہلاک کردیا اور اس کے محلات کو بھی تباہ و برباد کردیا۔ کاش! حجاج کو یہ معلوم ہو جائے کہ آسمان والے اس سے ناراض ہیں اور زمین والوں نے اسے دھوکہ میں رکھا ہوا ہے۔‘‘
وہ پورے جوش و ولولہ سے حجاج کے خلاف برس رہے تھے۔ ان کے منہ سے الفاظ تیروں کی طرح نکل رہے تھے، مجمع ان کی باتوں پر حیران اور خاموش تھا۔ یہاں تک کہ سامعین سے ایک شخص نے حجاج بن یوسف کے انتقامی جذبے سے خوف زدہ ہوکر حضرت حسن بصریؒ سے کہا: ’’جناب اب بس کیجئے، اتنا ہی کافی ہے، کیوں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں۔‘‘
حضرت حسن بصریؒ نے اس نیک دل شخص سے کہا: ’’(میرے بھائی!) حق تعالیٰ نے اہل علم سے یہ عہد لیا ہے کہ وہ (ظالم کے منہ پر بغیر کسی خوف کے) حق بات کی تبلیغ کرتے رہیں گے اور کبھی اس بات میں خیانت نہیں کریں گے۔ (یہی ہمیشہ حق والوں کی عادت رہی ہے اور یہی فریضہ آج ادا کررہا ہوں)۔‘‘
دوسرے روز حجاج گورنر ہاؤس میں آیا تو اس کا چہرہ غصے سے لال پیلا تھا، اس نے غضب ناک انداز میں اہل مجلس سے کہا:
’’(اے بزدلو! اور نالائقو!) میری نظروں سے دور ہو جاؤ، کتنے افسوس کی بات ہے کہ بصرہ کا ایک غلام مجمع عام میں بے لگام جو جی میں آتا ہے، میرے خلاف کہہ جاتا ہے اور تم میں کوئی ایسا نہیں، جو اس کی زبان کو روکے، شرم کرو، حیا کرو۔ اے بزدلوں کی جماعت کان کھول کر سنو: خدا کی قسم! اسے آج ایسی عبرت ناک سزا دوں گا کہ دنیا دیکھتی رہ جائے گی۔‘‘
پھر اس نے تلوار اور چمڑے کی چٹائی منگوائی، یہ دونوں چیزیں فوراً اس کے پاس لائی گئیں، اس نے جلاد کو بلایا، وہ پلک جھپکتے ہی سامنے آکھڑا ہوا، پھر پولیس کو حکم دیا کہ حسن بصریؒ کو گرفتار کر کے لایا جائے۔
پولیس تھوڑی ہی دیر میں انہیں پکڑ کر لے آئی۔ منظر بڑا ہی خوف ناک تھا۔ ہر طرف دہشت پھیلی ہوئی تھی۔ لوگوں کی نظریں اوپر اٹھی ہوئی تھیں۔ ہر شخص پریشان تھا، دل کانپ رہے تھے۔
جب حضرت حسن بصریؒ نے تلوار، جلاد اور چمڑے کی چٹائی کو دیکھا تو وہ تھوڑے مسکرائے اور کچھ پڑھنا شروع کر دیا۔
جب وہ حجاج کے سامنے آئے تو ان کے چہرے پر مؤمن کا رعب و جلال، مسلمان کی شان و شوکت اور مبلغ کی اسی متانت و سنجیدگی ظاہر ہورہی تھی۔
جب حجاج بن یوسف نے ان کی طرف دیکھا تو اس پر ہیبت طاری ہوگئی، غصہ ختم ہوگیا اور بڑی دھیمی آواز میں کہا:
’’اے ابو سعید (حسن بصریؒ) میں آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں، آئیے تشریف رکھئے، میرے قریب بیٹھیں۔ آپ بیٹھنے لگے تو کہا ذرا اور قریب ہو جائیں، یہاں تک کہ اسے اپنے ساتھ تخت پر بٹھا لیا۔ لوگ یہ منظر حیرت، تعجب اور خوف کے ملے جلے جذبات سے دیکھ رہے تھے۔‘‘
جب حضرت حسن بصریؒ بڑے اطمینان سے تخت پر بیٹھ گئے، تو حجاج نے ان سے دینی مسائل دریافت کرنے شروع کر دیئے۔
حضرت حسن بصریؒ ہر سوال کا جواب بڑی تسلی، وضاحت اور عالمانہ انداز میں دیتے رہے۔ حجاج بن یوسف ان کے جوابات سے بہت متاثر ہوا اور کہنے لگا: ’’ابو سعید واقعی تم علماء کے سردار ہو۔‘‘
پھر قیمتی عطر منگوایا اور ان کی داڑھی کو محبت بھرے انداز میں لگا کر الوداع کیا۔
جب حضرت حسن بصریؒ دربار سے نکلے تو حجاج کا دربان بھی ان کے پیچھے ہولیا، تھوڑی دور جاکر اس نے کہا: اے ابو سعید! حجاج نے آج آپ کو کسی اور غرض سے بلوایا تھا، لیکن اس کی طرف سے یہ حسن سلوک دیکھ کر میں حیران رہ گیا، مجھے ایک بات بتائیں، جب آپ گرفتار ہوکر دربار میں تشریف لائے اور آپ نے تلوار، جلاد اور چمڑے کی چٹائی کو دیکھا، تو آپ کے ہونٹ حرکت کررہے تھے، تو اس وقت آپ کیا پڑھ رہے تھے؟
حضرت حسن بصریؒ نے فرمایا: میں نے اس وقت یہ دعا کی تھی۔
حضرت حسن بصریؒ کی دعا:
ترجمہ: ’’الٰہی تو مجھ پر کی گئی نعمتوں کا مالک ہے، ہر مصیبت کے وقت راحت دینے والا ہے۔ الٰہی حجاج کے غصے کو میرے لیے ایسا ٹھنڈا اور سلامتی والا کر دے، جس طرح تو نے اپنے خلیل ابراہیمؑ پر آگ کو ٹھنڈا اور سلامتی والا کردیا تھا۔‘‘
میرے دعا کو حق تعالیٰ نے قبول کیا اور حجاج کا غصہ محبت میں بدل گیا۔
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے
(جاری ہے)