حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب علیہ الرحمۃ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند نے اپنے والد محترم حضرت مولانا حافظ محمد احمد صاحبؒ اور قرآن مجید سے متعلق ایک نہایت بصیرت افروز اور سبق آموز واقعہ بیان کیا ہے۔ اس واقعہ کو قاری طیب صاحبؒ کے الفاظ میں تلخیص کے ساتھ پیش کر رہے ہیں
مولانا لکھتے ہیں:
’’میرے والد ماجد (مولانا محمد احمدؒ) نے وفات سے تقریباً پندرہ بیس دن قبل مجھے دارالعلوم دیوبند کے دار المشورہ میں خلوت میں طلب فرمایا، میں حسب الحکم حاضر ہوا۔ مجھے دیکھتے ہی غیر معمولی طور پر آبدیدہ ہوگئے، حتیٰ کہ وفورِ گریہ کی وجہ سے چند منٹ تک بات بھی نہ کرسکے… مجھے یہ پریشانی ہوئی کہ کہیں مجھ سے تو کوئی ناگواری پیش نہیں آئی۔
میں نے اس کا ذکر کیا تو فرمایا نہیں، بلکہ مجھے یہ کہنا ہے کہ میرا وقت قریب آگیا ہے اور بہت تھوڑا وقفہ باقی رہ گیا ہے، مجھے اس وقت یہ واقعہ سنانا ہے کہ جب میں قرآن کریم کا حافظ ہو چکا تو حضرت والد ماجد حضرت محمد قاسم نانوتویؒ بانی دارالعلوم دیوبند بے حد مسرورتھے۔ ختم قرآن کی خوشی میں شہر کے عمائد اور اعزہ و احباب کے ایک بڑے مجمع کی لمبی چوڑی دعوت کی۔ تقریب سے فارغ ہوکر مجھے خلوت میں اسی طرح طلب کرکے فرمایا:
میاں احمد! خدا کا شکر ہے کہ تم حافظ ہوگئے۔ وقت آئے گا تم عالم بھی ہو گے۔ تمہاری عزت بھی ہو گی، ملک میں تمہاری شہرت بھی ہوگی اور تمہیں دولت بھی میسرآئے گی ،لیکن یہ سب چیزیں تمہارے لئے ہوں گی۔ قرآن میں نے تمہیں اپنے لئے حفظ کرایا ہے ’’مجھے فراموش نہ کرنا‘‘
فرمایا کہ وہ وقت ہے اور آج کا دن ہے، میرا یہ دوامی عمل ہے کہ میں ہمیشہ دو پارے یومیہ حضرت قبلہ والد صاحبؒ کو ایصال ثواب کی نیت سے پڑھتا ہوں، جو خدا کا شکر ہے کہ آج تک ناغہ نہیں ہوئے۔‘‘
مولانا لکھتے ہیں:
یہ واقعہ سنا کر مجھ سے فرمایا کہ طیب! خدا کا شکر کہ تم حافظ و عالم ہو چکے ہو، وقت آئے گا تمہاری عزت بھی ہو گی، شہرت بھی ہو گی اور حق تعالیٰ تمہیں دولت بھی بہت کچھ عطا فرمائے گا، لیکن یہ سب کچھ تمہارے لئے ہو گا… یہ قرآن میں نے تمہیں اپنے لئے حفظ کرایا ہے۔ ’’لہٰذا مجھے فراموش مت کرنا۔‘‘
چنانچہ حضرت قبلہ والد صاحبؒ کی وفات کے بعد آنے والے مہینے کی پہلی ہی تاریخ سے میں نے حضرت کی نصیحت بلکہ وصیت کے مطابق مغرب کے بعد اوابین میں ایک پارہ یومیہ پڑھنے اور حضرت مرحوم کو ایصال ثواب کرنے کا معمول بنا لیا ہے، جو بفضل الٰہی آج تک جاری ہے۔
(چراغ راہ از مولانا محمد رضوان القاسمی)
حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ نے اپنے والد محترم اور اپنے دادا جان کے جس طرز عمل اور قرآن مجید سے والہانہ محبت و شغف اور تعلق وشوق کو بیان کیا ہے، اس میں ہمارے اور آپ سب کے لئے عبرت اور نصیحت کے بہت سے پہلو پوشیدہ ہیں۔
آئیے! ہم سب بھی طے کریں اور تہیہ کریں کہ ہم بھی اپنی اولاد کو اسی جذبہ سے حافظ قرآن بنائیں گے اور خلوت میں بلا کر ان سے کہیں گے کہ بیٹا یہ قرآن میں نے تمہیں اپنے لئے حفظ کرایا ہے، مجھے فراموش مت کرنا اور ہم میں سے جوحافظ قرآن ہیں، وہ خاص طور اور جو حافظ قرآن نہیں ہیں، وہ عام طور پر روزانہ اپنے والدین کے نام قرآن مجید کا کچھ نہ کچھ حصہ ایصال ثواب کیلئے ضرور تلاوت کریں۔
حق تعالیٰ سے دعا کریں کہ ہم تمام لوگوں کو اسی جذبہ کے ساتھ اپنی اولاد کو حفظ قرآن مجید کرانے کی توفیق مرحمت فرمائے اور ان کے حفظ قرآن مجید کی دولت کو ہم لوگوں کی مغفرت اور نجات وبخشش کا ذریعہ بنائے۔ آمین یا رب العالمین!!!