سرفروش

قسط نمبر: 229
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
میں نے ظہیر کے لہجے میں موجود جنون کی جھلک سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کہا۔ ’’تمہاری یہ بات تو بالکل ٹھیک ہے یار۔ دل ہی دل میں یہ کھٹکا تو مجھے بھی محسوس ہو رہا تھا۔ لیکن مجھے تمہارا وہ بھاشن سہارا دے رہا تھا کہ ہتھیار تو ہم کبھی بھی چھین کر اپنے قبضے میں کرلیں گے‘‘۔
اسے یہ سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگی کہ میں اسے گھس رہا ہوں۔ اس نے ڈھٹائی سے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’کوئی بلاوجہ دعویٰ نہیں کیا تھا بھائی جی۔ مجھے آپ کی جنگجو صلاحیتوں پر پورا یقین تھا۔ لیکن جب آپ کو کنور بنتے دیکھا تو یہ خوش فہمی دور ہوگئی اور سمجھ لیا کہ جان پر بن آئی تو آپ سے کچھ امید رکھنا عبث ہے۔ سب خود ہی کرنا پڑے گا‘‘۔
میں نے مونچھوں کو بل دیتے ہوئے کہا۔ ’’ہم نے تم جیسے مشٹنڈوں کی فوج اسی لیے تو پال رکھی ہے۔ اگر اپنے ملازموں کی حفاظت بھی ہمیں کرنا ہے تو ان پر اتنا بھاری مال خرچ کرنے کا کیا فائدہ؟‘‘۔
میری بات سن کر ظہیر نے ایک بلند آہنگ قہقہہ لگایا، لیکن پھر فوراً ہی خاموش ہوکر ایک مؤدب اور فرض شناس ڈرائیور کا روپ دھار لیا۔ ہم جالندھر سے لگ بھگ سات میل پہلے واقع فیروز گاؤں کے قریب سڑک کنارے واقع پولیس ناکے کے قریب پہنچ رہے تھے، جہاں سب گاڑیوں کو روکا جا رہا تھا اور پولیس اہلکار سواریوں کا جائزہ لے کر گاڑیوں کو آگے جانے کی اجازت دے رہے تھے۔
میں نے اپنے چہرے پر گہری تمکنت اور خود پسندی کے آثار طاری کرلیے۔ ہماری باری آنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ شانے پر تھری ناٹ تھری رائفل لٹکائے، ایک بھاری جسم کے سنتری نے پہلے ظہیر پر اور پھر مجھ پر نظر ڈالی۔ میں نے جواباً ناراضی سے اسے گھورا۔ اس دوران وہ ظہیر سے پنجابی میں سوال کر چکا تھا۔ ’’کدھر آئے ہو سرکار؟ کدھر کا ارادہ ہے؟‘‘۔
ظہیر کے بجائے میں نے جواب دیا۔ میرے لہجے میں میرے مرتبے کی گھن گرج نمایاں تھی۔ ’’سنتری جی، ادھر آکر بات کرو۔ یہ بتاؤ تمہارا کب تک شریف لوگوں کی راہ کھوٹی کرنے کا ارادہ ہے؟ یہ ناکہ بندی کا سیاپا آخر کب تک چلے گا؟ سانپ نکلنے کے بعد لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ مٹھو سنگھ جی کو لوٹنے والے ڈاکوؤں کی ٹولی تو تم لوگوں کی کھنچائی ہونے سے پہلی ہی، جانے کب کی جودھ پور یا جیسلمیر پہنچ چکی ہوگی‘‘۔
میری سخت سرزنش سے سنتری بری طرح گڑبڑا گیا۔ وہ کچھ کہنے ہی والا تھا کہ اس کے بجائے ظہیر مجھ سے مخاطب ہوا۔ ’’ناراض نہ ہوں کنور جی، یہ تو ان بچاروں کی ڈیوٹی ہے، انہیں کون سا راہگیروں کو تنگ کر کے خوشی ملتی ہے‘‘۔
اس پر میں نے مربیانہ لہجے میں ظہیر کو مخاطب کیا۔ ’’مجھے پتا تھا تُو پولیس والوں سے ہمدردی جتانے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دے گا۔ آخر تیرا باپ بھی تو حوالدار بن کر ریٹائر ہوا تھا ناں! تُو بھی دو چار جماعتیں پڑھ لیتا تو سنتری لگ ہی جاتا‘‘۔
ظہیر نے میرا ناٹک آگے بڑھایا۔ ’’کوئی پروا نہیں ہے کنور جی، آپ کی سیوا میں بھی مجھے کسی چیز کی کمی نہیں ہے‘‘۔
اس دوران میں ہم دونوں کے مکالمے سے لطف اندوز ہوتا سنتری ظہیر کو گاڑی آگے بڑھانے کا اشارہ کر چکا تھا۔ ظہیر نے اشارے سے سنتری کا شکریہ ادا کیا۔ البتہ کنور جی نے سر ہلانے کی بھی زحمت نہیں کی۔ یہ الگ بات ہے کہ میں نے دل ہی دل میں اطمینان کی لہر ضرور محسوس کی تھی۔ ہم لوگ اپنی گاڑی کی ڈگی میں خطرناک اسلحے کا اتنا بڑا ذخیرہ لے کر جا رہے تھے کہ اگر پولیس والے کو ذرا سی بھی سن گن مل جاتی تو پنجاب کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک دوڑیں لگ جاتیں۔ اور اگر خدانخواستہ ہم اس اسلحے سمیت ان کے ہتھے چڑھ جاتے تو شاید دلّی تک ہنگامہ برپا ہو جاتا۔
ہم جیسے ہی ناکے سے آگے بڑھے، ظہیر کی خوش مزاجی لوٹ آئی اور وہ پھر چٹکلے چھوڑنے لگا۔ جالندھر سے آگے نکل کر ہم ایک بار پھر جی ٹی روڈ پر چڑھ گئے اور گاڑی کی رفتار بھی بڑھ گئی۔ پھگواڑا اور ستلج دریا کے پُل پر ہمیں ایک بار پھر پولیس ناکوں پر روکا گیا، لیکن محض شکلیں دیکھ کر آگے جانے کی اجازت دے دی گئی۔ مغرب کے قریب ہم لدھیانے کے پاس سے گزرے ۔ یہاں پولیس چوکی پر چند لمحے کے لیے روکا گیا، لیکن وہاں بھی ایک نظر ڈال کر روانہ ہونے کی اجازت دے دی گئی۔
اب ہم دونوں خود کو بے حد پُر اعتماد محسوس کر رہے تھے۔ ظہیر کے چہکنے کا سلسلہ جاری تھا۔ تاہم میں واضح طور پر محسوس کر رہا تھا کہ وہ مسلسل چوکنا ہے۔ میرا اندازہ تھا کہ وہ کسی بھی خطرے کی صورت میں ایک لمحے میں ریوالور نکال کر گولی چلا سکتا ہے۔ تاہم اس روز اللہ جل شانہ ہم پر کچھ زیادہ ہی مہربانی پر تُلا ہوا تھا۔ منڈی گوبند سنگھ میں اپنے ٹھکانے پر پہنچنے تک ہماری راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہوئی۔
ظہیر نے گاڑی ناصر کے آڑھت خانے کے پھاٹک کے سامنے روکی تو رات پوری طرح چھا چکی تھی۔ وہاں شاید بے تابی سے ہمارا انتظار کیا جا رہا تھا۔ کیونکہ ظہیر کے گاڑی کے ہارن پر دباؤ ڈالنے کے چند ہی لمحوں بعد پھاٹک کھلا اور ناصر باہر نکل آیا۔ ہم پر نظر پڑتے ہی اس کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔ اس نے جلدی سے پورا پھاٹک کھول دیا۔ ظہیر گاڑی سیدھا لیتا چلا گیا۔ ہم جیسے ہی گاڑی سے نکلے، یاسر بھی وہاں پہنچ گیا۔ اس کے چہرے پر تجسس اور تشویش کے ملے جلے تاثرات نمایاں تھے۔ میں نے گرم جوشی سے اسے گلے لگاتے ہوئے کہا۔ ’’مبارک ہو یاسر۔ اللہ کے فضل سے ہمارا مشن امید سے زیادہ کامیاب رہا‘‘۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment