قسط نمبر: 10
ترتیب و پیشکش/ ڈاکٹر فرمان فتحپوری
قمر زمانی بیگم کون ہیں؟ کیا ہیں؟ اور ان کی اہمیت کیا ہے؟ ان سوالوں کے مفصل جوابات آپ کو اس تحریر کے مطالعہ سے خود معلوم ہوجائیں گے۔ ابتداً اتنا ضرور کہنا ہے کہ اِن کے اور اُن کے معاشقے کی جو داستان یہاں بیان کی جارہی ہے۔ وہ فرضی نہیں حقیقی ہے۔ من گھڑت نہیں سچا واقعہ ہے۔ محض ایک رنگین و رومان پرور کہانی نہیں، ادبی تاریخ کا ایک دلکش باب ہے۔ معمولی اشخاص کی زندگی کی تفصیل نہیں، علم و ادب کی غیر معمولی شخصیتوں کا مرقع ہے۔ سنی سنائی باتوں کا مصنوعی مجموعہ نہیں، خطوط کی صورت میں ایک خاص عہد کی ادبی دستاویز ہے۔ جس کے منتخب حصے قارئین امت کی نذر ہیں۔
دلگیر کے 26 جنوری 1917ء کے لکھے گئے خط کے جواب میں بھی قمر زمانی کی جانب سے دیر ہوئی۔ دلگیر نے دس دن تک جواب کا انتظار کیا۔ مزید انتظار کی تاب نہ لاسکے اور دوسرا خط قمر زمانی کو اس طور پر روانہ کیا:
مزار دل‘‘
6 فروری 1917ءگوش مہجور پیام و بہ چشم محروم جمالایک دل تسپر یہ ناامید داری ہائے ہائےدل لے کر بھول جانے والی۔سلامت رہو، خدا اور ستانے کی توفیق دے۔
یادم نمی کنی و زیادم رومیعمرت دراز باد فراموش گار منکیا میرا رجسٹری شدہ خط آپ کو ملا نہیں۔ نہیں ملا تو ضرور، لیکن جواب کون دے…
اب ان کی بلا آنکھ ملاتی ہے کسی سےپورے ایک ماہ بعد جواب دینے کی عادت ہے، ایک خط 24 دسمبر کو ملا تھا، دوسرا 24 جنوری کو، اس لیے اب 24 فروری کو آپ کے دل آویز خط کا انتظار کرنا چاہئے، اگر عادت بدستور رہی تو مل جائے گا، ورنہ اپنی قسمت کو رو لیں گے۔
لیکن آہ یہ 18 دن کیسے کٹیں گے۔
اس خاموشیِ پیہم سے معلوم ہوتا ہے، آپ میری وفا کا امتحان لینا چاہتی ہیں۔ اچھا لیجئے (خدا مجھے آپ سے شرمندہ نہ کرے) مگر اتنا خیال رکھئے…
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک
یہی بے اعتنائی قائم رہی تو چند دن کا مہمان ہوں۔ سن لینا کہ کوئی بدنصیب تم پر جان نثار کر گیا۔
ایک مرتبہ پہلے بھی لکھ چکا ہوں اور اب پھر لکھتا ہوں کہ میں آپ سے کچھ نہیں چاہتا۔ صرف یہ چاہتا ہوں کہ یہ سلسلۂ خط و کتابت قائم رہے اور آپ مجھے جلد جلد یاد فرماتی رہیں۔ اس کے سوا کچھ اور آرزو ہو تو کافر۔
آج سے ایک ہفتہ تک آپ کے جواب کا انتظار کروں گا اور جواب نہ آیا تو یقین کیجئے میں نہ ہوں گا۔ آپ کے الطاف کے بعد یہ تغافل مجھ سے برداشت نہیں ہو سکتا۔ ہائے کیوں کر ہو سکتا ہے…
غم کھانے میں بودا دلِ ناکام بہت ہے
شاید پھر دل کی بھڑاس نہ نکال سکوں اور یہ خط آخری ہو۔ اس لیے وہ نالے جو بریلی میں خودبخود موزوں ہو گئے، جی چاہتا ہے آپ تک پہنچا دوں۔ میرے بعد مجھے ڈر ہے، کوئی ان کا پہنچانے والا نہ ہوگا۔ اگرچہ تمنا یہ تھی کہ آپ بصد شوق ان کو سنتیں اور میں سناتا، لیکن آپ کو کیا غرض کہ آہ دلگیر سنیں، اس لیے خود ہی بے حیا بن کر عرض کرتا ہوں اور یہ میرا آخری پیام ہے۔ اس کے بعد اطمینان کیجئے کوئی تکلیف نہ دوں گا:
جان کس بے قرار نے دی ہےخون کی بوند بوند بجلی ہے!
وہ سلامت رہے قیامت تکجان جس نے ہماری لے لی ہےٹوٹ جاتا ہے یہ امید سے آہنامرادوں کا جی بھی کیا جی ہےاس طرف کیا ہے نالہ و فریاداس طرف کیا ہے کس مپرسی ہےاپنا غم بھیج دو بہلنے کو!
دل میں حسرت مری اکیلی ہےمدتوں میرے دل کی بے تابی تیری شوخی کے ساتھ کھیلی ہےطے ہوئے شکر سب منازل عشقدل دیا پہلے جان اب دی ہےان کے پیکان کو دی ہے دل میں جگہنوک نشتر جگر میں رکھ لی ہےمیرے ملنے کا اور ان کو خیالکیفیت ایک خواب کی سی ہےقلب مضطر کا حال کیوں پوچھاغم گساری نے جان لے لی ہےیہ نہ آتا نہ جان یوں جاتی!
خط کے آنے نے جان لے لی ہےحال پوچھو گے تم تو رو دوں گاکیا کروں میں دکھا ہوا جی ہےتم بنالو جو ہار کے قابلاک فسردہ کلی بھی دل کی ہےاس کو سننا پڑے گا حرف بہ حرفیہ فسانہ تو آپ کا ہی ہےدل گرفتہ ہے آگرہ دل گیردل ستاں جان ستاں بریلی ہےدل چاہے تو بتا اتنا دیجئے کہ کون سا نالہ زیادہ پسند آیا، کیا جواب کا متوقع رہوں؟
آپ کا تاامید زیست’’دلگیر‘‘یہ خط ابھی پہنچا بھی نہ تھا کہ ادھر سے قمر زمانی نے دلگیر کے پہلے خط مرقومہ 26 جنوری کے جواب میں لکھ بھیجا:
بریلی9 فروری 1917ءکنیز نواز نہیں، بلکہ عاشق نواز (اب تو خوش ہوں)پیام محبت ملا، مسیحائے زماں آپ کو مجھ سے شکایت ہے کہ میں نے خط دیر سے لکھا اور مجھے اپنی قسمت سے شکوہ کہ کیوں جلد نہ لکھ سکی۔ ہاں البتہ اپنی مجبوریوں کا کہاں تک ذکر کروں اور ذکر کروں بھی تو آپ کیا سمجھیں گے۔ اگر نالہ شب گیر میں کوئی کشش ہے تو آپ کو سامنے بٹھاکر رو رو کر اپنا حال دل سناؤں گی۔ پھر دیکھوں میری مجبوریوں سے کیونکر متاثر نہیں ہوتے۔ خدا کے لیے اس طرح کی شکایت نہ کیجئے گا کہ میں نے خط کب لکھا اور کیوں دیر ہوئی۔ میں تو اسی کو غنیمت سمجھتی ہوں کہ میرے خط آپ کو اور آپ کے مجھ تک پہنچ جاتے ہیں۔ آپ کنیز نواز ہونے سے کیوں بیزار ہیں۔ کنیز بھی تو آپ ہی کی ہوں، جان دلگیر کہوں مگر نہیں، اف ان دو لفظوں میں خدا جانے کتنے جذبات پنہاں ہیں، نہ کہوں گی، اچھا نہ کہوں گی۔ خدا جانے وہ کون خوش نصیب ہوں گے جو آپ کو جان دلگیر کہہ سکیں۔ اُف اپنی بدگمانی۔ میں تو آپ سے بدگمان ہونا نہیں چاہتی، مگر کیا کروں یہ بھی محبت کا خاصہ ہے۔ اچھا نہیں میں آپ کو اپنا دلگیر کہوں گی، مگر میرے ہو کر رہنا۔ بے وفائی نہ کرنا، ورنہ مر جاؤں گی۔ مر مٹوں گی اور جان دے دوں گی۔ میری معذرت کو شرف قبولیت بخشنا، میری عزت بڑھایئے۔ اپنی محبت کا صدقہ معاف کر دیجئے۔ آپ نے میری تحریر کی داد دی۔ کیوں مجھے شرمندہ کرتے ہو۔ میں اگر آپ کے انداز تحریر کی داد دینا بھی چاہوں تو الفاظ کہاں سے لاؤں۔ یہ برجستہ فقرے یہ سلامت زبان یہ خوب صورت تر کیبیں یہ محبت سے لبریز فقرے اور پھر موزوں اشعار کا استعمال کس کس کا ذکر کروں۔ آپ ہی کے سر کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ یہ انداز تحریر ہی تو تھا جس نے مجھے تباہ کر دیا۔ قربان اس انداز سوال کے۔ مجھ سے تصویر کے متعلق پوچھا جاتا ہے، ہائے اللہ میں تو مارے شرم کے کچھ نہیں کہہ سکتی۔ ورنہ میں اپنے ارمانوں کا کیا ذکر کروں۔ یہی جی چاہتا ہے کہ تصویر نہیں بلکہ خود صاحب تصویر کو اپنے سامنے بٹھائوں، دیکھوں اور پرستش کروں۔ آپ کو میری قسم، جان دلگیر کی قسم بہت جلد بھیج دیجئے۔ نقاد کے لیے صبر نہیں ہو سکتا۔ نہیں ہو سکتا۔ آپ کو خبر ہے کہ میں کیوں اسے منگوا رہی ہوں، کیا آپ کا جی نہیں چاہتا کہ تنہائی میں میرا جی بہلے اور وہ بھی دلگیر کے نقاد کے ساتھ۔ فوراً بھیج دیجئے، مجلد کرانے کی بھی ضرورت نہیں۔ ابھی تک اوجین یا بنارس جانا بھی نہیں ہوا۔ بلا سے میں جاؤں یا نہ جاؤں، آپ کو اور کچھ نہ ہوا تو دہلی ضرور بلواؤں گی۔ صبر کیجئے۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتی کہ میرے ارمان آپ سے بڑھ کر ہیں۔ مگر میری مجبوریاں تو یقیناً کہیں زیادہ ہیں۔ آپ کے نالوں کی داد تو نالوں سے دوں گی، لیکن رو برو۔
اب کے آپ کی تحریر میں یہ مونوگرام کیا ہے۔ آپ کے نام کے تو حرف نہیں ہیں۔ دوسروں کے مونوگرام سے مجھے معاف رکھئے۔
(ق۔ز) (جاری ہے)