ضیاء الرحمان چترالی
منفرد پہچان کی وجہ سے چھوٹے علاقے بھی عالمی شہرت حاصل کرتے ہیں۔ امریکہ میں ایک ایسا قصبہ ہے، جہاں صرف 17 سو افراد بستے ہیں، مگر یہاں دفن ہونے والے مُردوں کی تعداد 15 لاکھ سے بھی زائد ہے۔ اس لئے کولما (Colma) نامی اس علاقے کو ’’مردوں کا قصبہ‘‘ (The Town of The Deads ) کہا جاتا ہے۔ جبکہ مقامی افراد اسے ’’خاموشی کا شہر‘‘ کہتے ہیں۔ امریکی نیوز چینل سی این این کی ویب سائٹ کے مطابق، کولما سان فرانسسکو کے جنوب میں واقع ہے۔ اس قصبے کا رقبہ اگرچہ دو مربع میل سے بھی کم ہے، مگر یہاں قبرستانوں کی تعداد 17 ہے۔ جن میں اب تک 15 لاکھ سے زائد مردے دفن کئے جا چکے ہیں۔ جبکہ یومیہ یہاں 70 سے 80 نئی قبریں بھی وجود میں آ رہی ہیں۔ اس لئے یہ دنیا کا واحد قصبہ ہے، جہاں زندہ افراد کے مقابلے میں دفن ہونے مردوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ سان ماتیو کاؤنٹی کی حدود میں واقع کولما میں ایک سو گھر ہیں اور اس قصبے کی آبادی 17 سو نفوس پر مشتمل ہے۔ گویا ایک زندہ شخص کے مقابلے میں ہزاروں مردہ افراد اس قصبے کے قبرستانوں میں دفن ہیں۔ یہی چیز کولما کو دوسرے قصبوں سے منفرد بناتی اور اسے عالمی شہرت بخشتی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ چھوٹے سے قصبے میں لاکھوں مردوں کی وجہ سے بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔ اس لئے بہت سی قبروں کو کھود کر باقیات قصبے سے باہر منتقل کی جا چکی ہیں اور قصبے کے کافی حصے کو قبروں سے خالی کیا جا چکا ہے۔ مگر پھر بھی یہاں کے 17 قبرستانوں میں تدفین کا سلسلہ جاری ہے۔ کولما کے باسیوں کا روزگار بھی شہر خموشاں سے وابستہ ہیں۔ زیادہ تر افراد گورکن ہیں۔ جبکہ باقی پھول اگانے اور قبروں کے کتبے بنانے کا کام کرتے ہیں۔ تاہم اب دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد بھی آکر اس قصبے میں آباد ہو چکے ہیں۔ اس چھوٹے سے قصبے میں اتنی ساری قبریں کہاں سے آئیں؟ اور یومیہ 70 سے زائد مردوں کو دفن کرنے کہاں سے لایا جاتا ہے؟ اس کا جواب ایک تاریخی پس منظر سے تعلق رکھتا ہے۔ اس قصبے کی تاریخ انیسویں صدی کے وسط سے شروع ہوتی ہے۔ جب کیلیفورنیا میں سونے کی دوڑ شروع ہوئی اور کم وقت میں امیر ہونے کا لالچ رکھنے والے لاکھوں افراد نے کیلیفورنیا کا رخ کیا، جن میں معدنیات تلاش کرنے والے، تاجر اور دیگر تارکین وطن شامل تھے۔ دراصل 1848ء میں ایک بڑھئی ’’جیمز ڈبلیو مارشل‘‘ نے آبی گزرگاہ کی تہہ میں چمک دار ٹکڑے دریافت کیے، جو جانچ پڑتال پر سونے کے ثابت ہوئے۔ چند ہی روز میں سونے کی دریافت کی خبر دنیا بھر میں پھیل گئی اور لوگ قیمتی دھات کی تلاش میں دیوانہ وار کیلیفورنیا کا رُخ کرنے لگے۔ بہتر مستقبل کی تلاش میں لوگوں کی آمد کا سلسلہ برسوں تک جاری رہا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سان فرانسسکو جو انیسویں صدی کے وسط تک ایک چھوٹا سا قصبہ تھا، بڑے شہر کی شکل اختیار کر گیا۔ لیکن سونے کی تلاش میں ہزاروں افراد حادثات کا شکار ہوکر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے یا پھر دیگر افراد مختلف بیماریوں کی وجہ سے موت کا شکار بنے۔ جبکہ باہر سے آنے والے لوگ اپنے ساتھ مختلف بیماریاں بھی لے کر آئے تھے، چنانچہ آبادی میں اضافے کے ساتھ شرح اموات بڑھتی چلی گئی۔ شہر کے مختلف حصوں میں قبرستان وجود میں آنے لگے اور ان کی تعداد 27 تک پہنچ گئی۔ پھر ان میں بھی جگہ نہ رہی۔ شہر کے بیچوں بیچ واقع ان قبرستانوں کو صحت عامہ کے لیے خطرناک قرار دے دیا گیا تھا۔ مگر سب سے اہم بات یہ تھی کہ قبرستانوں نے قیمتی اراضی گھیر رکھی تھی۔ چنانچہ 1902ء میں شہر اور کاؤنٹی کے بورڈ آف سپروائزرز نے قبرستانوں میں تدفین پر پابندی عائد کر دی اور بڑے قبرستانوں کی انتظامیہ کو ہدایت کی گئی کہ وہ پہلے سے موجود قبریں شہر سے باہر منتقل کر دیں۔ چار دہائیوں کی قانونی لڑائی کے بعد بالآخر 1942ء میں سوائے دو کے تمام قبرستانوں کے مکینوں کو شہر سے باہر نئے قبرستانوں میں منتقل کر دیا گیا۔ وسیع پیمانے پر ہونے والی اس ’’نقل مکانی‘‘ کے لیے کولما کا انتخاب کیا گیا تھا۔ سان فرانسسکو کے مضافات میں، پانچ میل کے فاصلے پر واقع کولما 1892ء میں بسایا گیا تھا۔ اس وقت بھی کولما کی آبادی چند سو نفوس پر مشتمل تھی اور آج بھی اتنی ہی ہے، مگر قصبے کے اطراف پھیلے ہوئے شہر ہائے خموشاں کے مکینوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ سان فرانسسکو کی حکومت نے ابتدا میں اعلان کیا تھا کہ شہر میں اب مزید قبرستان بنانے کی جگہ نہیں اور کسی کو بھی اب مردہ دفنانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ پھر 1914ء میں حکام کو محسوس ہوا کہ صرف تدفین پر پابندی لگانا کافی نہیں۔ اس لیے تمام قبرستانوں کے مالکان سے قبروں کے لیے قبضہ کی جانے والی جگہ واپس لینے کا فیصلہ کیا گیا اور تمام قبرستانوں کے مالکان کو مردے ہٹانے کے احکامات جاری کیے گئے۔ قبرستانوں میں تدفین رک جانے سے وہاں موجود قبریں شکست و ریخت کا شکار ہو گئیں اور خرابی اس انتہا کو پہنچی کے صحت کے لیے مضر ماحول نے جنم لینا شروع کر دیا۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے 1919ء میں حکومت نے ایک اور آرڈی نینس جاری کیا اور شہر میں قائم تمام قبرستانوں کو ختم کرنے کے احکامات جاری کر دیئے۔ قبرستانوں کے منتظمین میں سے کچھ نے اس قانون کے خلاف احتجاج کرنے کی کوشش بھی کی۔ اس میں کئی برس لگے، لیکن 1937ء تک ساری قبریں ختم کر دی گئیں۔ 1924ء میں قبرستان کے منتظمین نے ایک انجمن قائم کی، تاکہ آئندہ ایسے کسی بھی حکومتی فیصلے کی ڈٹ کر مخالفت ممکن ہو سکے۔ اسی انجمن نے lawndel کے نام سے ایک شہر بسایا، جس کا نام بگڑتے بگڑتے 1941ء میں ’’کولما‘‘ ہو گیا۔ وسیع شہر سان فرانسسکو سے اب بھی مردوں کو کولما لایا جاتا ہے۔ اس لئے یہاں کی آبادی کم ہونے کے باجود یومیہ اتنی بڑی تعداد میں مردے دفن کیے جاتے ہیں، جن میں کئی مشہور شخصیات بھی شامل ہیں۔ جیسے کہ ڈینم ٹراؤزر کے مالک لیوی اسٹرائوس، نیوز پیپر ٹائیکون ولیم رانڈوفھ اور بزنس ٹائیکون گیانینی آماڈیو جو کہ بینک آف امریکہ کے بانی بھی تھے، یہاں دفن ہیں۔ کولما کے رہائشی اپنے قصبے کو ’’خاموشی کا شہر‘‘ کہتے ہیں، عام طور پر اسے سٹی آف سولز (روحوں کا شہر)، اور مردوں کا شہر جیسے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ لیکن صورت حال اس وقت مضحکہ خیز ہو جاتی ہے، جب اس قصبے کا سرکاری نعرہ پڑھا جائے جو کہ ’’کولما میں زندگی عظیم ہے‘‘ ہے۔ ٭