ملیر پولیس پیسوں کیلئے لوگوں کو پھر اٹھانے لگی

عظمت علی رحمانی
ملیر میں پولیس نے اغوا برائے تاوان کی کارروائیاں پھر شروع کر دی ہیں۔ مقامی تاجر کے بیٹے کو گرفتار کرکے ایس ایچ او سائٹ سپر ہائی وے سالم رند نے والدین سے 20 لاکھ روپے تاوان مانگا۔ جبکہ ایس ایس پی ملیر کی قائم کردہ جی آئی ٹی میں موجود متعلقہ تھانوں کے انوسٹی گیشن اہلکاروں کی جانب سے رپورٹ درست بنانے پر ان کے تبادلے کردیئے گئے۔ ادھر ملیر سے منتخب ہونے والے عوامی نمائندوں کی خاموشی سے پختون آبادیوں میں شدید بے چینی پھیلنے لگی ہے۔ سبزی منڈی یونین اور نقیب اللہ محسود قتل کیس کے وکیل پیر رحمان ایڈووکیٹ نے ملیر پولیس کے خلاف عدالت سے رجوع کرلیا۔
کراچی کے اضلاع میں ملیر کو پولیس کے حوالے سے انتہائی سازگار اور منفعت بخش ضلع قرار دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے راؤ انوار نے زیادہ تر ملازمت اسی ضلع میں کی۔ اب ملیرمیں ایک بار پھر راؤ انوار کی باقیات سر اٹھانے لگی ہیں۔
ایس ایچ او سائٹ سپر ہائی وے انڈسٹریل ایریا سالم رند نے 7 جنوری کی سہ پہر ایم محسود مارکیٹنگ کے ڈائریکٹر مصطفی خان کو ان سے دفتر واقع گلشن معمار سے ساتھ لیا اور احسن آباد چوکی لے آئے، جہاں انہیں کہا گیا کہ اپنے بیٹے ذکران خان کو پیش کرو، اس سے کوئی بات کرنی ہے۔ مصطفیٰ خان نے اپنے رشتہ دار پیر رحمان ایڈووکیٹ کو کال کر کے چوکی بلایا۔ پیر رحمان ایڈووکیٹ کو بھی ایس ایچ او نے کہا کہ ذکران خان کو بلائیں۔ ذکران خان اپنے والد کی قائم کردہ ایف وائی مارکیٹنگ کے منیجر ہیں۔ ان کو 7 جنوری کی رات تھانے بلایا گیا تھا۔ جبکہ ذکران خان کے تھانے آنے کے بعد ایس ایچ او سائٹ سپر ہائی وے انڈسٹریل ایریا سالم رند، سبزی منڈی پولیس چوکی کے انچارج اے ایس آئی حق نواز اور احسن آباد چوکی انچارج اے ایس آئی ممتاز کی موجودگی میں بلیک کلر کی پرائیویٹ کرولا گاڑی میں ذکران خان کو ساتھ لے گیا۔ جس کے بعد مصطفی خان اور پیر رحمان کو کہا گیا کہ ذکران خان شام کو گھر آجائے گا۔ تاہم رات گئے ذکران کے گھر نہ پہنچنے پر مصطفی خان نے پولیس اہلکاروں سے رابطہ کیا تو سالم رند کے قریبی اہلکار نے مصطفیٰ خان کو پیغام دیا کہ اگر 20 لاکھ روپے نہیں دیئے تو ذکران کا انکاؤنٹر کردیا جائے گا۔ 7 جنوری کی رات گئے حبیب ریسٹورنٹ ہائی وے پر سالم رند کا پرائیویٹ کارندہ آیا۔ اس نے پیر رحمان اور مصطفی خان کو کہا کہ سالم رند کو 20 لاکھ روپے دیں، بصورت دیگر انکاؤنٹر ہوگا۔ جس پر 23 سالہ ذکران خان کی بازبابی کیلئے بارگیننگ کی گئی۔ تاہم پرائیویٹ بندے نے کہا کہ سالم رند نے قسم اٹھائی ہے کہ اگر ذکران کے والد نے پیسے نہ دیئے تو ہم صبح تک اس کا انکاؤنٹر کر دیں گے۔ تاہم باہمی مشاورت کے بعد 8 جنوری کو سالم رند نے ساڑھے 11 لاکھ روپے بھی خود وصول کئے، جبکہ اس کے باوجود بھی ذکران خان کو اس کے والد کے حوالے نہیں کیا گیا اور یوں سالم رند پیسے لے کر نکل گیا اور اس کے بعد اپنا موبائل فون آف کر دیا۔ 9 جنوری کو سالم رند نے مصطفی خان کو کہا کہ بچہ واپس کر دیں گے۔ تاہم معلوم ہوا کہ ذکران خان کو سبزی منڈی چوکی کے حوالے کردیا گیا ہے، جہاں پر چوکی انچارج اے ایس آئی حق نواز نے 5 جنوری کو سبزی منڈی میں ہونے والے ڈکیتی کے ملزم کے طور پر اس پر گرفتاری بھی ڈال دی۔ جبکہ مذکورہ ڈکیتی کی ایف آئی آر نامعلوم افراد کے خلاف تھی۔ 9 جنوری کی رات ہی کو ہی ایس ایس پی ملیر عرفان بہادر نے ایک جے آئی ٹی بنادی۔ حیرت انگیز طور پر کسی بھی ڈکیتی کے کیس میں پہلی بار جے آئی ٹی بنائی گئی جس میں ایجنسی کا کوئی نمائندہ تک شامل نہیں کیا گیا۔
اس جے آئی ٹی میں سائٹ سپر ہائی وے کے ایس آئی او چوہدری اسلم کو سربراہ مقرر کیا گیا اور اس کے ممبران میں اے ایس آئی اسرار، ڈی ایس پی ارشد مغل اور سہراب گوٹھ، گلزار ہجری اور سچل کے ایس آئی اوز کو شامل کیا گیا۔ بعد ازاں اس کیس میں گرفتاری شو کرنے والے اے ایس آئی حق نواز کو معطل کرکے اس کی تنزلی بھی کر دی گئی۔ اسی رات کو احسن آباد پولیس چوکی کے انچارج اے ایس آئی ممتاز کو بھی معطل کر دیا گیا۔ 10 جنوری کو چورہدری اسلم جو جے آئی ٹی کے سربراہ ہیں، وہ آئی او اسرار اور ملزم ذکران خان کے ساتھ ملیر جوڈیشل مجسٹریٹ نمبر 10 میں پیش ہوئے، جہاں انہوں نے ملزم کا ریمانڈ مانگا۔ جبکہ ایڈووکیٹ پیر رحمان محسود نے مجسٹریٹ سے استدعا کی کہ بنیادی طور پر یہ اغوا برائے تاوان کا کیس ہے اور میں اس کو عینی شاہد ہوں اور ہمیں سازش کے تحت پھنسایا گیا ہے۔ بعد ازاں مجسٹریٹ نے پولیس کو ملزم کا 12جنوری تک ریمانڈ دیا۔
ملزم کی انوسٹی گیشن شروع ہوئی اور اس دوران جے آئی ٹی نے 11 جنوری کو رپورٹ ایس ایس پی کو پیش کی، جس کے بعد پوری جے آئی ٹی تحلیل کردی گئی۔ جے آئی ٹی کے سربراہ اسلم چوہدری کو معطل کرکے ٹرانسفر کردیا گیا۔ جبکہ جے آئی ٹی کے ممبر ڈی ایس پی ارشد مغل کو بھی معطل کیا گیا۔ اسی رات کوایس آئی او جان محمد کا تبادلہ سہرا ب گوٹھ سے شاہ لطیف تبادلہ کیا گیا اور شاہ لطیف میں چارج لینے سے قبل ہی اس کو سائٹ سپر ہائی وے ٹرانسفر کیا گیا۔ اس کے بعد رات ہی کو دوسری جے آئی ٹی تشکیل دی گئی جس کا سربراہ ایس آئی او جان محمد کو بنا دیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق پہلے والی جے آئی ٹی میں بعض پولیس اہلکاروں کی جانب سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ ایک بار پھر انہیں راؤ انوار کی ٹیم کی طرح استعمال کیا جارہا ہے۔
اس حوالے سے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے پیر رحمان ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ 12 جنوری کو ملیر جوڈیشل مجسٹریٹ نمبر 12 کی عدالت میں ذکران خان کو دوبارہ کیس کے گواہان کے ساتھ پیش کیا گیا۔ جہاں 164 ضابطہ فوجداری کئے تحت ان کے بیانات قلمبند کرانے کیلئے درخواست دی گئی۔ واضح رہے کہ 164 کے تحت گواہان کی تصویریں عدالت میں پیش کرنا لازمی ہوتا ہے جو بیانات کے ساتھ لگانی ہوتی ہیں وہ تفتیشی ٹیم لیکر ہی نہیں آئی تھی۔ دوسری بدنیتی کرتے ہوئے 164 کے تحت کیس کے مدعی، جن کے یہاں ڈکیتی ہوئی تھی، ان کے بیان کیلئے بھی عدالت سے استدعا نہیں کی گئی۔ جس کے بعد عدالت نے مدعی کے بھائی اور چشم دید گواہ مظہر اقبال، محمد قسیم اور عبدالرشید کے بیانات ریکارڈ کئے جن میں انہوں نے حلفاً اقرار کیا کہ ذکران خان ہمارا ملزم نہیں ہے کیونکہ ہم اپنے ملزمان کو بخوبی شناخت کرسکتے ہیں۔ جبکہ ذکران سے نکالے جانے والے پیسے بھی ہمارے نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مدعی پرویز حسین اور ان تینوں گواہان نے عدالت میں حلف نامے جمع کرائے جس میں دوبارہ کہاگیا کہ یہ ہمارا ملزم نہیں اور پیسے بھی ہمارے نہیں ہیں اور ہم استدعا کرتے ہیں کہ پولیس ہمارے اصل ملزما ن کو گرفتا رکرے جس کے بعد عدالت نے وہیں پر ملزم کی ہتھکڑی کھلوائی۔
دوسری جانب سبزی منڈی ڈکیتی کیس کے مدعی کی جانب سے پولیس کا جھوٹ میں ساتھ نہ دینے پر گزشتہ روز سائٹ سپر ہائی وے انڈسٹریل ایریا کے ایس ایچ او سالم رند نے نیو سبزی منڈی یونین کے نامعلوم افراد کے خلاف درج پرانی ایف آئی آر میں یونین کے چیدہ چیدہ 10 سے 15 افراد کے نام ڈال دیئے ہیں۔ تاکہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ معلوم رہے کہ سبزی منڈی کے تاجروں میں بھی ملیر پولیس انتظامیہ کے خلاف خدشات بڑھنے لگے ہیں۔ نیو سبزی منڈی یونین کے وائس چیئرمین غفور تنولی نے اس ایف آئی آر اور ڈسٹرکٹ ملیر کی پولیس انتظامیہ کے خلاف ہائی کورٹ کراچی میں آئینی درخواست بھی لگا رکھی ہے، جس میں عدالت نے ڈی آئی جی ایسٹ، ایس ایس پی ملیر، ایس ایچ او سالم رند اور چوکی انچارج سبزی منڈی کو طلب کررکھا ہے۔
اس حوالے سے کراچی ویجی ٹیبل ٹریڈ ز فیڈریشن کے صدر صالح محمد کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں 5 جنوری کو ڈکیتی ہوئی تھی، جس میں ہمارے ممبر سے پیسے لوٹ لیئے گئے۔ پولیس نے خانہ پری کیلئے کسی اور پکڑ لیا۔ جنرل سیکرٹری رئوف تنولی کا کہنا تھا کہ پولیس نے ہمارے خلاف جھوٹا مقدمہ نمبر 530 درج کیا تھا، جس میں 20 سے زائد تاجروں کو شامل کیا تھا، جس پر میں نے عدالت سے رجوع کیا ہوا ہے۔
اس حوالے سے ایس ایچ او سائیٹ سپر ہائی وے انڈسٹریل ایریا سالم رند سے ان کے موبائل پر رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ملزم ذکران اور مدعی پرویز حسین کے مابین صلح ہوگئی ہے۔ کیونکہ دونوں کاروباری لوگ ہیں، اس لئے بات کو بڑھا نا نہیں چاہتے۔ ہم نے سی ڈی آر سے اور سی سی ٹی وی ریکارڈ سے ملزمان کو پہچان کرگرفتار کیا تھا۔ تاہم معاملہ عدالت جانے کے بعد صلح ہوگئی ہے۔٭

Comments (0)
Add Comment