نجومیوں نے تین ماہ حکومت کیلئے اہم قرار دیدئیے

امت رپورٹ
غیب کا علم سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی کے پاس نہیں۔ ستارہ شناسی محض حساب کتاب (Calculation) پر مشتمل ایک دنیاوی علم ہے۔ ایک ستارہ شناس ماضی اور حال میں ستاروں کی پوزیشن کا موازنہ کر کے اپنا تجزیہ اور اندازہ بیان کرتا ہے۔ لہٰذاان ’’پیش گوئیوں‘‘ کو اس تناظر میں ہی دیکھا جانا چاہیے۔ ضروری نہیں کہ آسٹرولوجسٹ حضرات کی بیان کردہ باتیں درست ہی ثابت ہوں۔
معروف ستارہ شناسوں نے ملکی حالات پر ملی جلی پیشن گوئیاں کی ہیں۔ سید انتظار حسین زنجانی نے اگلے تین ماہ کو پی ٹی آئی اقتدار کے لئے نہایت اہم اور مشکل قرار دیا ہے۔ جبکہ روزینہ جلال کا کہنا ہے کہ کم از کم رواں برس کے دوران حکومت کو خطرہ دکھائی نہیں دے رہا۔ لیکن یہ امکان کم ہے کہ موجودہ منتخب سیٹ اپ اپنی مقررہ مدت پورے کرلے۔
آسٹرولوجر انتظار حسین زنجانی کا کہنا ہے کہ سال کا پہلا سورج گرہن 6 جنوری کو لگ چکا ہے، جس کا دورانیہ ساڑھے چار گھنٹے کے قریب تھا۔ جبکہ 21 جنوری کو مکمل چاند گرہن لگنے جارہا ہے۔ اس کا دورانیہ چھ گھنٹے پر محیط ہوگا۔ رواں برس کل پانچ گرہن ہیں۔ ان میں دو سورج اور تین چاند گرہن ہیں۔ ایک سورج گرہن لگ چکا، چار باقی ہیں۔ انتظار زنجانی کے بقول چاند اور سورج گرہنوں کے ملکی حالات، حکمرانوں، اپوزیشن اور عوام، سب پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بالخصوص صاحب اقتدار طبقہ زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ لہٰذا حالیہ گرہنوں کا حکومت وقت پر اثر انداز ہونا حیرانی کی بات نہیں ہوگی۔ دوسری جانب 19 دسمبر 2018ء سے ستاروں کی کچھ ایسی پوزیشن چل رہی ہے کہ ملکی معاملات 23 مارچ تک بہت گرم رہیں گے۔ جبکہ یہ عرصہ خاص طور پر وزیر اعظم عمران خان کے لئے خاصا مشکل ہے۔ وزیر اعظم کا عروج والا ستارہ پہلے ہی خراب پوزیشن میں آچکا ہے۔ ان تین ماہ کے دوران عمران خان اور ان کی حکومت کو غیر متوقع صورتحال درپیش ہوسکتی ہے۔ انتظار حسین زنجانی کے مطابق 1947ء میں ملک دولخت ہونے کے بعد پاکستان کی پیدائش کا نیا زائچہ 20 دسمبر 1971ء کو وجود میں آیا۔ اس سے پہلے والا زائچہ چونکہ غیر منقسم پاکستان کا تھا، لہٰذا ملک دو ٹکڑے ہوجانے کے بعد پرانا پیدائشی زائچہ غیر موثر ہوگیا اور پاکستان کا نیا زائچہ بنا۔ 20 دسمبر 1971ء کی دوپہر دو بجے معرض وجود میں آنے والے پاکستان کے نئے پیدائشی زائچے کا طالع برج ثور ہے اور اس کا مالک ستارا زہرہ ہے۔ جبکہ 5 اکتوبر 1952ء کو دنیا میں آنے والے عمران خان کے پیدائشی برج کا طالع برج اگرچہ میزان ہے، لیکن اس برج کا مالک ستارا بھی زہرہ ہے۔ دوسری جانب بطور وزیر اعظم عمران خان نے 18 اگست 2018ء کو صبح دس بج کر 35 منٹ پر حلف اٹھایا تھا۔ ان کے حلف کے زائچے کا طالع برج بھی میزان ہے۔ یوں عمران خان کے پیدائشی اور حلف اٹھانے، دونوں کا طالع برج میزان اور مالک ستارہ زہرہ ہے۔ یہی زہرہ ستارہ پاکستان کے زائچے کے طالع برج کا مالک ستارہ بھی ہے۔ اس اتفاق نے عمران خان کے عروج کو متاثر کیا ہے۔ جبکہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ برج میزان کے سامنے مخالف ستارے راہو اور کیتو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑے ہوگئے ہیں۔ دسمبر 2018ء سے شروع ہونے والی راہو اور کیتو کی یہ پوزیشن مارچ 2019ء تک برقرار رہے گی۔ اس عرصے کے دوران یہ دونوں حریف ستارے وزیر اعظم کی پیدائش اور حلف برداری کے طالع برج میزان کو بری طرح نقصان پہنچائیں گے۔ اس کے نتیجے میں وزیر اعظم، ان کی کابینہ اور پارٹی اس قدر غلط فیصلے کر سکتے ہیں کہ ان کی حکومت کو خطرہ لاحق ہوجائے۔ اس دوران وزیر اعظم کی صحت کے حوالے سے بھی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا انہیں اپنی صحت پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ زنجانی کے بقول ستاروں کے بد اثرات پر محیط مارچ کے آخر تک کے عرصے میں وزیر اعظم سے جو متوقع غلطیاں سرزد ہوسکتی ہیں، اس کی شدت بیان کرنے کے لئے ان غلطیوں کو سو سے ضرب دے دیا جائے۔ ان خراب ستاروں کے اثر سے بچنے کے لئے وزیر اعظم کو کثرت سے صدقات دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جس طرح صدقہ موت کو ٹال سکتا ہے، اسی طرح صدقات سے ستاروں کے برے اثرات کم کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ انتظار زنجانی کے مطابق اگر تین ماہ کا یہ مشکل مرحلہ عمران خان کی حکومت نکال بھی لیتی ہے تو پھر بھی اسے اپنے دور اقتدار میں بدترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر حکومت اپنی مدت پوری کر گئی تو یہ آسٹرولوجی کی رو سے ایک حیران کن تجربہ ہوگا۔ کیونکہ عمران خان نے جب بطور وزیر اعظم اپنے منصب کا حلف اٹھایا تھا تو ستارے موافق پوزیشن میں نہیں تھے۔ اسی لئے یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ صدر ممنون حسین کے بعد انہیں نئے آنے والے صدر سے بھی حلف لینا چاہئے۔ لیکن اس مشورے کو اہمیت نہیں دی گئی۔ انتظار حسین زنجانی کے مطابق ستارہ شناسی کے علم کی رو سے پاکستان پر سیارہ مریخ کا غلبہ ہے۔ مریخ کا تعلقہ فوج سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کا ایک طویل دور فوجی حکمرانوں کے زیر تسلط رہا اور جمہوری دور میں بھی ان کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح پاکستان کے پیدائشی زائچے کی ساخت اس نوعیت کی ہے کہ اسے پارلیمانی نظام کے بجائے صدارتی نظام سوٹ کرتا ہے۔ اس وقت آسمانی کونسل پر ستاروں کی جو پوزیشن بنی ہوئی ہے اور آگے بننے جارہی ہے، اس سے ملک ریفرنڈم کی طرف جانے کی نشاندہی ہوتی ہے۔ اس ریفرنڈم کے بطن سے ہی صدارتی نظام جنم لے گا۔ انتظار حسین زنجانی کے بقول موجودہ حکومت نے 8 اگست کو اقتدار سنبھالا تھا اور اگست 2019ء میں اسے ایک برس پورا ہوجائے گا۔ اس ایک برس کے دورانیہ میں ہی ریفرنڈم کی طرف اہم پیش رفت کا امکان ہے۔ اور اگر یہ ریفرنڈم ہوجاتا ہے تو پھر چند ماہ کے اندر صدارتی نظام بھی متعارف کرایا جاسکتا ہے۔
شریف برادران کے مستقبل کے حوالے سے سید انتظار حسین زنجانی کا کہنا ہے کہ اس وقت نواز شریف کے مقابلے میں ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کے ستارے کچھ بہتر پوزیشن میں ہیں۔ لیکن مستقبل قریب میں اُنہیں کوئی اہم کردار ملنے کا امکان نہیں۔ جبکہ نواز شریف کی زندگی میں نشیب و فراز کا سلسلہ چلتا رہے گا۔ یعنی وہ جیل کے اندر اور باہر ہوتے رہیں گے۔ سابق وزیر اعظم کو این آر او ملنے کا امکان نہیں، لیکن ’’ریلیف‘‘ ضرور مل سکتا ہے اور اس ممکنہ ’’ریلیف‘‘ کا تعلق بھی ان کی ماں کی دعائوں سے جڑا ہے۔ ستاروں کے بداثرات کو کائونٹر کرنے کے لئے صدقہ اور ماں کی دعائیں سب سے موثر نسخہ ہیں۔ چونکہ نواز شریف اپنی ماں کی بہت خدمت کرتے ہیں، لہٰذا ماضی میں بھی جب کبھی ان کے ستارے گردش میں آئے تو انہیں مائوں کی دعائوں سے سہارا ملا۔
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے بارے میں انتظار حسین زنجانی کا کہنا ہے کہ ان کے ستارے بھی بہت خراب پوزیشن میں چل رہے ہیں۔ اس لحاظ سے انہیں اب تک گرفتار ہوجانا چاہئے تھا۔ لیکن اس گرفتاری میں تاخیر کی وجہ آصف زرداری کی طرف سے کثرت سے صدقات دینا ہیں۔ ماضی میں بھی صدقے آصف زرداری کو بچاتے رہے ہیں۔ جن دنوں وہ ایوان صدر میں تھے تو اس وقت بھی روزانہ بکروں کا صدقہ دیا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تمام تر مشکلات کے باوجود اپنی مدت پوری کرگئے۔ تاہم انتظار زنجانی کے بقول آنے والے چند ماہ کے دوران آصف زرداری کے ستارے اس قدر خراب پوزیشن میں آنے والے ہیں کہ بالآخر اُن کی گرفتاری عمل میں آجائے گی۔
شہرت یافتہ خاتون آسٹرولوجر روزینہ جلال کا کہنا ہے کہ اگرچہ رواں برس بھی پی ٹی آئی حکومت کے لئے مشکلات لاتا رہے گا، لیکن اس سال حکومت جانے کے امکانات کم ہیں۔ حکمرانوں کو اصل خطرہ 2020ء میں لاحق ہوگا۔ رواں برس عوام کو مزید مہنگائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن عوام یہ سب کچھ چپ چاپ سہتے رہیں گے کہ ان کو متحرک کرنے والے ستارے ساکت پڑے ہیں۔ جبکہ قانون کا ستارہ مضبوط پوزیشن میں ہے۔ لہٰذا رواں برس قانون کی بالادستی رہے گی اور قانون پر سختی سے عمل کرایا جائے گا۔ روزینہ جلال کے بقول ایک ستارہ بھی یہ نشاندہی نہیں کر رہا کہ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گا۔ بلکہ ستاروں میں کچھ ایسی ردوبدل ہورہی ہے ، اس کے نتیجے میں ایک ایسا سیٹ اپ آسکتا ہے، جس میں اکثریت نئے چہروں کی ہوگی۔ اکتوبر کے آغاز اور اگلے برس اپریل کے آخر تک کرپشن کے چند بڑے معاملات بھی کھل کر سامنے آئیں گے۔ اس وقت تک آصف علی زرداری کی گرفتاری ہوچکی ہوگی، جبکہ یہ بلاول کے عروج کا آغاز ہوگا، جن کے ستارے اس وقت بھی خاصی مضبوط پوزیشن میں ہیں۔ آگے چل کر بلاول بھٹو زرداری پر خاص حلقے بھی ہاتھ رکھ دیں گے۔ دوسری جانب حمزہ شہباز کے ستارے مضبوط ہو رہے ہیں۔ وہ نیب کے کرپشن کیسز سے بھی نکلنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اگر گرفتار ہوئے بھی تو یہ گرفتاری طویل نہیں عارضی ہوگی۔ تاہم شریف برادران کے حالات کم و بیش اسی ڈگر پر چلتے رہیں گے، جس ڈگر پر اس وقت چل رہے ہیں۔ اس عرصے کے دوران دونوں بھائیوں کی صحت کے معاملات خاصے پیچیدہ ہوسکتے ہیں، لیکن علاج کے نام پر شہباز شریف باہر نہیں جاسکیں گے۔ روزینہ جلال کے بقول ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی دونوں کے بیشتر وزرا کا مریخ اور بعض کا زحل بہت کمزور چل رہا ہے۔ لہٰذا ان پارٹیوں کے وزرا کو اپنی سیکورٹی پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
روزینہ جلال کا مزید کہنا تھا کہ 6 جنوری کو لگنے والے سورج گرہن کے اثرات اگرچہ ملکی حالات اور دیگر طبقوں پر بھی پڑیں گے۔ تاہم بداثرات کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ گرہن دو سابق صدور پر لگا ہے۔ ان میں ایک آصف علی زرداری اور دوسرے ممنون حسین ہیں۔ آصف زرداری پہلے ہی زیر عتاب ہیں۔ 21 جنوری کو چاند گرہن کے براہ راست اثرات بھی آصف زرداری پر پڑیں گے۔ اس کے نتیجے میں وہ فروری یا مارچ میں گرفتار ہو سکتے ہیں۔ جبکہ صحت کے حوالے سے ان کے سینے اور پیٹ تک کا حصہ بیماری کی زد میں آسکتا ہے۔ سابق آمر پرویز مشرف کے بارے میں روزینہ جلال کا کہنا ہے کہ ان کی سیاست کا باب بند ہوچکا ہے۔ رواں برس صحت کے حوالے سے سابق صدر کو مزید پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور اُن کی حالت تشویشناک حد تک بگڑ سکتی ہے۔

Comments (0)
Add Comment