سندھ میں ان ہائوس تبدیلی کا گیم ’’سیمی فائنل‘‘ میں پہنچ گیا ہے۔ واضح رہے کہ کوارٹر فائنل رائونڈ میں حکومتی وزرا کی ناتجربہ کے سبب اس ’’میگا ٹورنامنٹ‘‘ میں عارضی وقفہ آگیا تھا اور کچھ طے شدہ میچ کینسل کرنا پڑے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ گیم میں عارضی وقفہ آنے کے باوجود پس پردہ پریکٹس میچ جاری تھے۔ اور اب وارم اپ ہونے کے بعد ٹورنامنٹ کا ’’سیمی فائنل‘‘ کھیلنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ اس کا آغاز 25 جنوری کو وزیراعظم عمران خان کے دورہ سندھ سے ہو گا۔ جی ڈی اے کے معتبر ذرائع نے بتایا کہ سندھ میں آئینی تبدیلی کی کوششیں اہم مرحلے میں داخل ہو چکی ہیں۔ اس سلسلے میں وزیراعظم کا دورہ سندھ اہمیت اختیار کر گیا ہے، جو علی گوہر مہر کی دعوت پر
گھوٹکی (خان گڑھ) بھی جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق اس ملاقات کا ایجنڈا جی ڈی اے نے طے کر لیا ہے۔ وزیراعظم سے مطالبہ کیا جائے گا کہ سندھ میں سیاسی تبدیلی کی کوششیں تو چلتی رہیں گی، تاہم اس سے پہلے وفاق، سندھ میں اپنے اتحادیوں کے لیے پیکیج کا اعلان کرے۔ ساری توجہ صرف ایم کیو ایم اور کراچی پر نہ رکھی جائے۔
وزیراعظم کے دورہ سندھ سے قبل ازیں پچ کا معائنہ کرنے کے لیے آج (منگل کو) وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی آمد متوقع ہے۔ واضح رہے کہ پی پی مخالف گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) نے اب سندھ میں ان ہائوس تبدیلی کی حمایت کا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے۔ اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس سلسلے میں پی پی کے 12 ارکان صوبائی اسمبلی جی ڈی اے سے رابطوں میں ہیں۔ تاہم ساتھ ہی وضاحت کی گئی ہے کہ سندھ حکومت گرانے کے لیے کسی غیر آئینی عمل کا حصہ نہیں بنا جائے گا۔
سندھ میں تبدیلی کی کوششوں کے عمل میں شریک دو سے زائد سیاسی رہنمائوں نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ صوبے میں ممکنہ گورنر راج کی کوششوں کے خلاف سپریم کورٹ کے سخت الفاظ کے بعد گورنر رول کا امکان ویسے ہی کم ہو گیا تھا اور اب جی ڈی اے کی طرف سے اس نوعیت کے ممکنہ اقدام کی کھل کر مخالفت سے یہ آپشن بالکل ختم ہو گیا ہے۔ رہنمائوں کا دعویٰ تھا کہ جی ڈی اے شروع سے ہی گورنر راج کا مخالف رہا ہے، اور اب اس نے اعلانیہ طور پر بھی اس کی دو ٹوک وضاحت کر دی ہے۔ گورنر راج کا آئیڈیا اسلام آباد سے چلایا گیا تھا، جو بیک فائر ہو چکا ہے۔ اگر اس آپشن پر عمل کیا جاتا یا مستقبل میں دوبارہ یہ آپشن استعمال کرنے کی کوشش کی گئی تو جی ڈی اے اس کی مخالفت میں سب سے آگے ہو گا۔ رہنمائوں کے بقول ظاہر ہے کہ گورنر رول کے نتیجے میں سارا فائدہ تحریک انصاف کو پہنچے گا اور سندھ عملاً ان کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔ اس سے جی ڈی اے یا دیگر اپوزیشن پارٹیوں کو کیا ملے گا؟ یہی وجہ ہے کہ ابتدا میں ہونے والی میٹنگز میں بھی جی ڈی اے نے گورنر رول کی کبھی حمایت نہیں کی۔ البتہ ان ہائوس تبدیلی کے آئینی طریقے سے سندھ حکومت ہٹائے جانے اور اس کے بعد بننے والی حکومت میں سب سے زیادہ حصہ جی ڈی اے کو ملنے کا امکان ہے۔ نئے وزیراعلیٰ کے طور پر علی گوہر مہر کا نام پہلے ہی منصوبہ سازوں کو دیا جا چکا ہے۔ اتوار کو گوہر پیلس گھوٹکی میں جی ڈی اے کے اہم اجلاس میں شریک ایک اور رہنما نے بتایا کہ الائنس کے سربراہ پیر صبغت اللہ شاہ راشدی (پیر پگاڑا) نے دوران میٹنگ واضح کر دیا ہے کہ ان ہائوس تبدیلی کی صورت میں جی ڈی اے کی جانب سے وزارت اعلیٰ کے امیدوار علی گوہر مہر ہوں گے۔ اگرچہ اس اعلیٰ صوبائی منصب کی دبی دبی خواہش ارباب غلام رحیم بھی اپنے دل میں رکھتے ہیں، لیکن رہنما کے بقول یہ خواب میں چھیچھڑوں والی بات ہے، اور اس کا ایک فیصد بھی امکان نہیں۔
جی ڈی اے کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ اتوار کی میٹنگ کے بعد اگرچہ 12 پی پی ارکان کے رابطوں کا انکشاف کیا گیا ہے، لیکن اصل تعداد اس سے دو ڈھائی گنا زیادہ ہے۔ ایک حکمت عملی کے تحت اصل فیگر ظاہر کرنے سے گریز کیا جارہا ہے۔ یاد رہے کہ تحریک انصاف کی صوبائی قیادت بھی 20 سے 22 پی پی ارکان سے رابطوں کا دعویٰ کر چکی ہے۔ ان میں سے بیشتر وہی ہیں، جنہوں نے جی ڈی اے سے بھی خفیہ ٹانکا جوڑ رکھا ہے۔
ذرائع کے مطابق گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے بعض رہنمائوں کا اب بھی یہ خیال ہے کہ سندھ میں تبدیلی سے متعلق پلان میں اس قدر آگے نہیں جانا چاہئے کہ 25 جولائی کے انتخابات جیسی ہزیمت دوبارہ اٹھانی پڑے۔ لہٰذا گرائونڈ پر ہونے والے عملی اقدامات کی رفتار کی رفتار دیکھ کر محتاط طریقے سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ ان خیالات کے حامی جی ڈی اے کے ایک رہنما کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا ’’میں اور میرے چند ہم خیال رہنما اسی لیے زیادہ میڈیا کے سامنے نہیں آرہے۔ ہمارا موقف ہے، جب تک یقین نہ ہو جائے کہ سندھ میں آئینی طریقے سے تبدیلی لانے کے طریقے اور پلان کو حتمی شکل دے دی گئی ہے، زیادہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں‘‘۔ مذکورہ رہنما کے بقول موجودہ صورت حال میں اگر سندھ میں ان ہائوس تبدیلی لانے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کے لیے جی ڈی اے سمیت اپوزیشن کے پاس مطلوبہ نمبرز موجود نہیں۔ جبکہ باغی ارکان کے ووٹ استعمال کرنے میں اٹھارہویں ترمیم رکاوٹ ہے۔ اس صورت میں اپوزیشن کا ساتھ دینے والے پی پی ارکان نااہل ہو سکتے ہیں، جس سے آئینی بحران پیدا ہو گا۔ رہنمائوں کے مطابق یہ ڈسکس ہوا ہے کہ ان ہائوس تبدیلی کا خواب دو صورتوں میں پورا ہو سکتا ہے۔ ایک یہ کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نیب تحقیقات میں گرفتار ہو جائیں یا پھر انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا جائے۔ دونوں صورتوں میں وہ وزیراعلیٰ نہیں رہیں گے اور ان کی جگہ پی پی اگر اپنا دوسرا وزیراعلیٰ لاتی ہے تو اسے دوبارہ عدم اعتماد کا ووٹ لینا پڑے گا، جس کے لیے ایوان کے کم از کم 87 ووٹ درکار ہوں گے۔ یہی وہ موقع ہو گا جب پی پی کے باغی ارکان اِدھر اُدھر ہو سکتے ہیں۔ کوئی بیماری کا بہانہ کر کے اور کچھ کوئی ناگزیر مجبوری کے تحت بیرون ملک روانہ ہو کر اپنی غیر حاضری کو یقینی بنا سکتا ہے۔ اگرچہ اس کے نتیجے میں بھی نااہلیت سے متعلق آئین کی شق حرکت میں لائی جا سکتی ہے، جس کے تحت وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے پارٹی کے ارکان نہ اپنے امیدوار کے خلاف ووٹ دے سکتے ہیں اور نہ ہی اس سلسلے میں کرائی جانے والی رائے شماری سے لاتعلق ہو سکتے ہیں۔ تاہم رہنمائوں کے بقول یہ بحران اس سے کہیں زیادہ کم ہوگا، جو تحریک عدم اعتماد کی صورت میں وزیراعلیٰ کے خلاف پی پی کے باغی ارکان کی طرف سے ووٹ دیئے جانے کی صورت میں متوقع ہے۔ کیونکہ یہ رائے شماری خفیہ نہیں ہوتی، لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ مخالف ووٹ دینے والے ارکان خود کو چھپا کر رکھ سکیں۔ رہنمائوں کے مطابق تحریک انصاف کی جانب سے وزیراعلیٰ سندھ کے استعفے کا مطالبہ اسی لیے کیا جارہا ہے کہ اس کے نتیجے میں Fragile (نازک) صورت حال پیدا ہو جائے۔ اور جب پی پی اپنا دوسرا وزیراعلیٰ لانے کی کوشش کرے تو اسے اعتماد کا ووٹ لینے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے۔ وزیراعلیٰ سندھ کے استعفے کا مطالبہ جی ڈی اے نے بھی کر دیا ہے اور اس مطالبے میں شدت لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ تحریک انصاف اور بالخصوص وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی جانب سے یہ مطالبہ متعدد بار دہرایا جا چکا ہے کہ جے آئی ٹی میں نام آنے پر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو مستعفی ہو جانا چاہئے، چاہے اس کی جگہ پی پی ناصر حسین شاہ کی شکل میں اپنا دوسرا وزیراعلیٰ لے آئے، اور یہ کہ اس پر پی ٹی آئی کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
جی ڈی اے کے ایک اور سینئر رہنما کے بقول اس مطالبے نما مشورے کا ایک مقصد وہی ہے جو بیان کیا جا چکا ہے اور دوسرا مقصد پی پی کی صفوں میں پھوٹ ڈالنا ہے۔ رہنما نے یہ دلچسپ انکشاف کیا کہ وزیر اطلاعات کی جانب سے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے متبادل کے طور پر ناصر حسین شاہ کا نام لیے جانے پر انہوں نے خود کو نصف وزیراعلیٰ تصور کرنا شروع کر دیا ہے۔ دل میں لڈو پھوٹنے کی کیفیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ روز متذکرہ جی ڈی اے رہنما سے ناصر حسین شاہ کے بیٹے کی اتفاقیہ ملاقات ہوئی تو اس کا استفسار تھا ’’بابا کے حوالے سے کچھ ہورہا ہے یا نہیں‘‘۔
اتوار کے روز ضلع گھوٹکی کے شہر خان گڑھ میں واقع علی گوہر مہر کی رہائش گاہ پر سندھ حکومت ہٹائے جانے کے مجوزہ پلان کا جائزہ لینے کے لیے اہم میٹنگ ہورہی تھی۔ جس میں پیر پگاڑا، ایاز لطیف پلیجو، علی گوہر مہر، ارباب غلام رحیم، غوث بخش مہر، غلام مرتضیٰ جتوئی، عرفان اللہ مروت اور دیگر رہنما سر جوڑے بیٹھے تھے تو دوسری جانب سکھر روہڑی میں پیپلزپارٹی کے متعدد اہم رہنما ایک شادی کی تقریب میں کھانا اڑانے میں مصروف تھے۔ یہ سابق ایم پی اے اور پی پی سکھر ڈویژن کے موجودہ صدر جاوید شاہ کے بیٹے کی شادی کی تقریب تھی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ شادی کی تقریب سے فارغ ہو کر خورشید شاہ، منظور وسان، نواب خان وسان، امتیاز شیخ، جاوید علی اور سہیل انور سیال سمیت دیگر پی پی رہنما جب واپس جانے کے لیے سکھر ایئرپورٹ پہنچے تو ان کا اتفاقیہ ٹاکرا جی ڈی اے کے بعض رہنمائوں سے ہو گیا۔ جی ڈی اے کے یہ رہنما علی گوہر مہر کی رہائش گاہ پر ہونے والی میٹنگ میں شرکت کے بعد کراچی واپس آنے کے لیے سکھر ایئرپورٹ پہنچے تھے۔ جی ڈی اے اور پی پی رہنمائوں کی فلائٹ بھی ایک تھی۔ ذرائع کے مطابق اس موقع پر دونوں سیاسی مخالفین کے درمیان لائٹر موڈ میں دلچسپ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ پی پی کے ایک رہنما نے جی ڈی اے کے ایک رہنما کو دیکھ کر پوچھا ’’آپ سکھر میں کیا کر رہے ہیں؟‘‘۔ جی ڈی اے رہنما کا جواب تھا ’’آپ لوگوں کی حکومت گرانے آئے ہیں‘‘۔ پی پی رہنما کا ہنستے ہوئے کہنا تھا ’’اتنی آسانی سے نہیں گرے گی‘‘