ارچنا امیت سے مؤمنہ تبسم تک

اگلے ہی اتوار کو امیت نے کہا: چلو ڈاکٹر صاحب کے گھر چلیں۔ امیت نے انہیں فون کیا۔ انہوں نے کہا: تشریف لائیے، میں انتظار کروں گا۔ حسب وعدہ شام کو ہم چلے۔
یقین کیجیے، زندگی میں پہلی بار ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میرا کوئی بھائی ہے اور میں اپنے بھائی کے گھر جا رہی ہوں۔ میرا کوئی حقیقی بھائی یا بہن نہیں ہے، ماں باپ کا بھی کافی پہلے انتقال ہو چکا تھا۔ اب جو عزیز بھی ہیں، وہ سسرالی رشتے دار ہیں۔
ہم وہاں پہنچے تو ڈاکٹر صاحب اپنے آفس کے باہر انتظار کر رہے تھے۔ بڑی محبت سے ملے اور فوراً گھر میں لے گئے۔ بٹھایا اور کچن میں اپنی اہلیہ ام سلمیٰ اعظمی سے ملاقات کرائی، جو میری ہی عمر کی ہیں یا سال دو سال چھوٹی ہوں گی۔ ان سے مل کر مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ بڑی ہنس مکھ، ملن سار اور سلیقہ مند ہیں۔ ضیافت کا اچھا خاصا اہتمام کیا تھا۔
چائے کے دوران میں ہی میں نے کہا: ڈاکٹر صاحب! اگر آپ اجازت دیں اور کوئی حرج نہ ہو تو روٹی میں پکا دوں، اس لیے کہ بچہ رو رہا ہے اور بھابھی پریشان ہیں۔
انہوں نے کہا: بھابھی سے پوچھ لو۔ آپ اپنے ہی گھر میں ہیں، ان کی اس بات مجھے حد درجہ خوشی ہوئی۔ میں نے بہت کہا کہ کھانا پکانے میں مدد کروں، مگر بھابھی نے کہا: اب نہیں، جب دوبارہ آئیے گا تو کھانا پکائیے گا۔ اس دوران میں، میں تو بھابھی سے باتیں کرتی رہی اور ڈاکٹر صاحب امیت کو بہت سی کتابیں دکھاتے رہے۔ امیت کتابوں کے دیوانے ہیں۔
تقریباً دو ڈھائی گھنٹے بعد جب ہم چلنے کو تیار ہوئے تو امیت نے دسیوں کتابیں لے لی تھیں۔ چلتے ہوئے بھابھی نے ایک پیکٹ دیا اور کہا: اسے گھر جا کر کھولیے گا۔ ہم لوگ گھر پہنچے، دس بج چکے تھے، پیکٹ کھولا تو حیرت اور خوشی کی انتہا نہ رہی، ایک ساڑھی، بلاؤز اور میری بیٹی سمتا کے لیے ایک فراک اور ایک کلو مٹھائی کا ڈبہ تھا۔ مجھے ایسا لگا کہ میں اپنے سگے بھائی کے گھر سے رخصت ہو کر آئی ہوں۔
اب کیا تھا۔ امیت آئے دن ڈاکٹر صاحب سے ملتے رہے۔ کتابیں لاتے رہے، رات رات بھر پڑھتے اور واپس پہنچاتے رہے۔ میں بھی کتابیں پڑھتی تھی۔ ’’شانتی مارگ‘‘ ’’مکتی مارگ‘‘ ’’جیون مرتیو کے پشچات‘‘ ’’اسلام دھرم‘‘ ’’اسلام جس سے مجھے پیار ہے‘‘ ’’چالیس حدیثیں‘‘ ’’قرآن کے پریچے‘‘ اور ’’قرآن کا ترجمہ‘‘ سب کچھ پڑھ ڈالا۔
چار پانچ بار میں ڈاکٹر صاحب کے گھر گئی۔ جب بھی جاتی اور واپس آتی تو بھابھی کچھ نہ کچھ کپڑے، کھلونے، کھانے پینے کی چیزیں یا کوئی اور چیز ضرور دیتیں۔ دو، تین بار وہ بھی ہمارے پاس ہمارے گھر آئیں۔ ہم لوگ ایک دوسرے کے کافی قریب ہو چکے تھے۔
امیت اکثر ڈاکٹر صاحب سے ملتے رہتے اور وہ بھی فون کر کے ان کو بلا لیتے، مگر ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا، بار بار کہنے کے باوجود ڈاکٹر صاحب ہمارے گھر نہیں آئے۔ ہر بار کوئی مجبوری یا عذر بیان کرتے اور پھر آنے کا وعدہ کرتے۔
ایک بار ہم لوگ ان کے گھر گئے تو معلوم ہوا کہ طبیعت کچھ خراب ہے۔ بدن سنسنا رہا ہے اور بھابھی اپنی ناراضی ظاہر کر رہی ہیں۔ معلوم ہوا کہ آج ہی کسی اجنبی مریض کو خون دے کر آئے ہیں، جب کہ دو ماہ پہلے کسی مریضہ کو خون دیا تھا۔ بھابھی ناراض ہو رہی تھیں اور وہ کہہ رہے تھے کہ اگر خون دے کر کسی کی جان بچ سکتی ہے تو کیا حرج ہے؟ میں نے بھابھی کی حمایت کی۔(جاری ہے)
(باقی صفحہ 4بقیہ نمبر2)

Comments (0)
Add Comment