آسمانی کتابوں اور انبیاءؑ کے بھیجنے کا مقصد لوگوں کو عدل و انصاف پر قائم کرنا ہے:
لَقَدْ اَرْسَلْنَا… الایۃ، لفظ بینٰت کے لغوی معنی واضح اور کھلی ہوئی چیزوں کے ہیں۔ اس سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ واضح احکام ہوں، جیسا کہ خلاصہ تفسیر میں یہی ترجمہ لیا گیا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس سے معجزات اور نبوت و رسالت پر واضح دلائل مراد ہوں (کما فسرہ بہ ابن کثیر وابن حیان) اور بینت کے بعد کتاب نازل کرنے کا علیحدہ ذکر بظاہر اسی تفسیر کا موید ہے کہ بینٰت سے مراد معجزات و دلائل ہوں اور احکام کی تفصیل کے لئے کتاب نازل کرنے کا ذکر فرمایا گیا۔
کتاب کے ساتھ ایک دوسری چیز میزان نازل کرنے کا بھی ذکر ہے، میزان اصل میں اس آلہ کو کہا جاتا ہے، جس سے کسی چیز کا وزن کیا جائے، جس کی
عام صورت ترازو ہے اور مروجہ ترازو کے علاوہ مختلف چیزوں کے وزن تولنے کے لئے جو دوسرے مختلف قسم کے آلات ایجاد ہوتے رہتے ہیں، وہ بھی میزان کے مفہوم میں داخل ہیں، جیسے آج کل روشنی، گرمی، ہوا وغیرہ کے ناپنے والے آلات ہیں۔
اس آیت میں کتاب کی طرح میزان کے لئے بھی نازل کرنے کا ذکر فرمایا ہے، کتاب کا آسمان سے نازل ہونا اور فرشتوں کے ذریعے پیغمبر تک پہنچنا تو معلوم و معروف ہے، میزان کے نازل کرنے کا کیا مطلب ہے، اس کے متعلق تفسیر روح المعانی مظہری وغیرہ میں ہے کہ انزال میزان سے مراد ان احکام کا نزول ہے، جو ترازو استعمال کرنے اور انصاف کرنے کے متعلق نازل ہوئے اور قرطبی نے فرمایا کہ دراصل انزال تو کتاب ہی کا ہوا ہے، ترازو کے وضع کرنے اور ایجاد کرنے کو اس کے ساتھ لگا دیا گیا ہے، جیسا کہ عرب کے کلام میں اس کی نظائر موجود ہیں تو گویا مفہوم کلام کا یہ ہے کہ انزلنا الکتب و وضعنا المیزان ’’یعنی ہم نے اتاری کتاب اور ایجاد کی ترازو‘‘ اس کی تائید سورئہ رحمان سے بھی ہوتی ہے کہ اس میں میزان کے ساتھ لفظ وضع استعمال فرمایا ہے۔ (جاری ہے)
(باقی صفحہ 4بقیہ نمبر3)