حضرت ابو الاسود الدؤلیؒ کا اپنی بیوی سے بیٹے کے متعلق جھگڑا ہوا۔
حضرت ابو الاسودؒ نے بیوی سے بیٹا چھیننا چاہا۔ بیوی اسے زیاد جو بصرہ کے گورنر تھے، اس کے پاس لے گئی۔
بیوی نے گورنرکے سامنے اپنا یوں بیان کیا: خدا امیر کو سلامت رکھے، یہ میرا بچہ ہے، میرا پیٹ اس کے لیے برتن، میری گود اس کا صحن، میرے پستان اس کے لیے دودھ کے مشکیزے تھے، یہ سوتا تو میں اس کی نگہداشت کرتی، اٹھتا تو اس کی حفاظت کرتی۔ یونہی سات برس گزر گئے، دودھ چھڑانے کے بعد یہ اس عمر کو پہنچا کہ باپ اسے ساتھ لے کر چل سکے۔ اس کی عادات اچھی ہوگئیں، اس کے جوڑ مضبوط ہو گئے اور میں یہ امید لگا بیٹھی کہ اب یہ مجھے نفع پہنچائے گا اور میری مدافعت کرے گا، ایسے وقت میں یہ باپ اسے مجھ سے زبردستی چھیننا چاہتا ہے۔ امیر! میری مدد کیجیے! یہ اپنا قہر برسانے اور جبر کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے۔
حضرت ابو الاسودالدؤلیؒ بولے: خدا آپ کو سلامت رکھے، میں نے اپنے بچے کو اس کے اٹھانے سے پہلے (اپنی پشت میں) اٹھایا، اس کے جنم دینے سے پہلے اس کو (رحم مادر میں) جنم دیا اور اب اسے ادب سکھلانے کا میں نے بیڑا اٹھایا ہے، اس کی ضروریات کو پورا کرتا ہوں، اسے علم سکھاتا اور حلم (بردبادی) عطا کرتا ہوں، یہاں تک کہ اب اس کی عقل کامل ہو گئی اور نشاط (چستی اور پھرتی) اور قوت مستحکم ہو گئی۔
عورت نے جواباً کہا:
ہاں! امیر المومنین! یہ سچ کہتا ہے،(مگر
میرے اور اس کے اٹھانے، میرے اور اس کے جنم دینے میں زمین و آسمان کا فرق ہے) اس نے اس وقت اٹھایا جب یہ بالکل ہلکا پھلکا تھا اور جب میں نے اسے (اپنے پیٹ میں اس کے پورے وجود سمیت) اٹھایا تو اس وقت یہ بھاری تھا، اس نے اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے (میرے رحم میں) اسے جنم دیا، لیکن میں نے مجبور ہو کر (مشقت اور تکلیف کے ساتھ) اسے جنم دیا ہے۔
زیاد نے فریقین کی باتیں سن کر اپنا فیصلہ سنایا (شوہر سے کہا:) بچہ ماں کے حوالے کر دو، یہی اس کی زیادہ حق دار ہے اور اپنی قافیہ بندی (تک بندی) بند کر دو۔ (باقی صفحہ 4بقیہ نمبر5)