افغانستان میں امن لانے کا خواب ایک بار پھر بکھرتا دکھائی دے رہا ہے۔ خرد کا نام جنوں رکھنے والی قوتیں اپنے حسن کرشمہ ساز سے طالبان کا بازو مروڑ رہی ہیں کہ وہ ہر صورت کابل حکومت کے برابر بیٹھ کر اسے فریق تسلیم کریں اور ہر وہ بات مانیں جو اسے سند جواز دینے اور دائمی زندگی عطا کرنے کے لیے ضروری ہو۔ مگر طالبان انکار پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ اور اب شنید ہے کہ انہوں نے مذاکرات ختم کرنے پر بھی غور شروع کر دیا ہے۔ طالبان کے بقول امن کے نام پر امن بگاڑنے کی اس المناک کہانی میں غیروں سے زیادہ اپنے شریک ہیں۔ امریکہ اور کابل حکومت کی تو بات ہی چھوڑیئے۔ انہیں ایران اور پاکستان سے بھی شکایت ہے کہ دونوں مل کر امریکہ کے چہرے پر کامیابی کا غازہ ملنا چاہتے ہیں۔ یا کم از کم ناکامی کی کالک اتارنا چاہتے ہیں۔ اور اس کے لیے طالبان کا رومال استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ طالبان کے بقول یہ دونوں کابل حکومت کو مستقبل کے افغانستان کا یکے از وارث بنانا چاہتے ہیں۔ اور بھارت کو افغان امور میں مداخلت کی اجازت دے رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کابل میں ایک خالص اسلامی حکومت کے قیام سے خوف زدہ ہیں۔ طالبان کی ان شکایات کا اثر قطر میں ہونے والے مذاکرات پر یوں پڑا کہ طالبان کا وفد اسلام آباد ایئرپورٹ پر انتظار کرتا رہ گیا اور قطر سے آنے والا طیارہ رن وے پر کھڑا انجن گرماتا رہا۔ پھر کئی گھنٹوں بعد دونوں اپنے اپنے مقام پر واپس لوٹ گئے۔ کہتے ہیں طالبان وفد میں متوکل اور فقیر محمد سمیت بعض دیگر رہنما شامل تھے۔ جنوری کے پہلے ہفتے میں ہونے والی اس لاحاصل مشق کا اصل سبب یہ تھا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نہیں چاہتے تھے کہ طالبان امریکہ سے مذاکرات قطر میں کریں۔ ادھر طالبان کا اصرار تھا کہ وہ قطر کے علاوہ کہیں اور مذاکرات نہیں کریں گے۔ کیونکہ ایک تو اس کا اعلان ہو چکا ہے۔ اور دوسرے قطر پچھلے دس برس سے طالبان کے ساتھ کھڑا ہے۔ پاکستانی حکام کے لیے یہ ایک مشکل گھڑی تھی۔ سعودی ولی عہد کا دورہ سر پر تھا۔ اور ان کا مطالبہ تھا کہ طالبان کو قطر جانے سے روکا جائے۔ سعودیوں سے چونکہ مزید مالی امداد متوقع تھی۔ اس لیے فی الحال معاملے کو منجمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ قطری حکومت کو بتایا گیا کہ طالبان وفد نہیں آ سکا۔ اور طالبان وفد کو بتایا گیا کہ قطری طیارہ نہ آ سکا۔ یوں کئی گھنٹے کی آنکھ مچولی کے بعد یہ معاملہ وہیں ختم ہو گیا۔ جہاں سے شروع ہوا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ پتہ سب کو سب کچھ تھا۔ لیکن مجبور پاکستان کے لیے شرمندگی کا لمحہ تخلیق کرنے کے بجائے قطر اور طالبان نے خاموشی اختیار کر لی۔ اس معاملے پر ٹھنڈ پڑتے ہی افغان مصالحتی کمیشن کے رکن اور حامد کرزئی کی کابینہ کے سابق وزیر عمر دائود زئی پاکستان آگئے۔ وہ اپنے ساتھ یہ تجویز لائے تھے کہ امریکہ طالبان مذاکرات اسلام آباد میں کرا لیے جائیں۔ تاکہ مشرق وسطیٰ میں کسی دوست کو شکایت نہ ہو۔ ذرائع کے بقول اس تجویز کو سعودی عرب۔ امارات اور ایران کی حمایت بھی حاصل تھی۔ تاہم امریکہ اور بھارت گریزاں تھے۔ کیونکہ اس سے افغان امور پر پاکستان کا کنٹرول ایک بار پھر بڑھتا نظر آئے گا۔ جو خصوصاً بھارت کو قبول نہیں۔ ادھر طالبان ذرائع کہتے ہیں کہ وہ قطر کے بعد پاکستان میں بھی مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ لیکن کابل حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے کسی قیمت پر آمادہ نہیں۔ خواہ اس کے بدلے انہیں مذاکرات ختم کرنے پڑیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کابل حکومت کے ساتھ بیٹھنے اور مذاکرات کرنے کا براہ راست مطلب یہ ہو گا کہ انہوں نے اسے تسلیم کر لیا ہے۔ اور ایسی صورت میں ان کے پاس جنگ لڑنے کا جواز ختم ہو جائے گا۔ لیکن امریکہ چونکہ ایک غیر ملکی کافر جارح طاقت ہے۔ جس نے افغانستان پر قبضہ کر کے اپنے غلاموں کو کابل سونپ رکھا ہے۔ اس لیے امریکہ سے مذاکرات ضروری ہیں۔ تاکہ اسے افغانستان سے باہر نکالا جا سکے۔ امریکہ کے مقابلے میں کابل حکومت امریکی فوج کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی ہے۔ اس سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں۔ سو جو بھی ان سے مذاکرات پر اصرار کرے گا۔ وہ طالبان کا دشمن ہوگا۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایرانی حکام نے طالبان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنا سیاسی بازو مضبوط کریں۔ اور حزب اللہ کی طرز پر سیاسی قیادت آگے لائیں۔ اس مشورے کی افادیت کو تسلیم کرتے ہوئے طالبان نے ترکی ماڈل کو سامنے رکھ کر اپنے سیاسی بازو کو مضبوط کرنے پر کام شروع کر دیا ہے۔ ایرانیوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ طالبان اپنا سیاسی بازو مضبوط کرنے اور اسے آگے لانے میں مشکل محسوس کریں تو حزب اسلامی افغانستان سے رابطے بڑھائیں۔ ایرانی حکام کے بقول حکمت یار سے ان کے تعلقات اس نہج پر نہیں کہ وہ انہیں اس کام کے لیے آمادہ کر سکیں۔ لیکن طالبان ان سے مل کر ایک سیاسی اتحاد ضرور بنا سکتے ہیں۔ کم از کم پہلے مرحلے میں دونوں اتحاد بناکر آگے بڑھیں۔ اور یہ تجربہ اگر کامیاب ہو جائے تو ایک بھی ہو سکتے ہیں۔ اصل مشکل یہ ہے کہ امریکہ کو فیس سیونگ دینے کے لیے سارے ملک بے چین ہیں۔ پاکستان کی مجبوری یہ ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی لسٹ سر پر تلوار بن کر لٹک رہی ہے۔ اور ایران کو ممکنہ امریکی مہم جوئی کے خطرے کا سامنا ہے۔ یہ مہم جوئی فرقہ وارانہ تصادم سے بھی شروع ہو سکتی ہے اور عالمی مالیاتی ناکہ بندی بڑھانے سے بھی۔ دوسری بات یہ کہ کابل میں طالبان کی حکومت بننے سے بھی یہ دونوں خوف زدہ ہیں۔ تیسرا ملک بھارت ہے۔ جو طالبان کی ممکنہ حکومت کے خدشے سے پریشان ہے۔ ایرانیوں کو خطرہ ہے کہ طالبان کا افغانستان ان کے مخالف سیاسی اور مذہبی گروہوں کی پناہ گاہ بن جائے گا۔ طالبان کی یقین دہانیاں اپنی جگہ۔ لیکن ایک بار وہ اقتدار میں آگئے اور دونوں حکومتوں کے درمیان کسی ممکنہ اختلاف نے سر اٹھا لیا تو یہ خطرہ دوبارہ زندہ ہو جائے گا۔ خصوصاً اس لیے بھی کہ دس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین ایران میں مقیم ہیں۔ پاکستان کو خدشہ ہے کہ کابل میں ایک خالص اسلامی حکومت پاکستان میں اسلام پسندوں کو عموماً اور بنیاد پرستوں کو خصوصاً نیا حوصلہ دے گی۔ فاٹا اور خیبر پختون خصوصاً اسلام پسند تحریکوں۔ گروہوں اور پارٹیوں کا مرکز بن جائیں گے۔ ممکن ہے کہ ان میں سے بعض آگے چل کر خود کو مسلح کرلیں۔ اور از خود نظام شریعت نافذ کرنے کی طرف چل پڑیں۔ سو یہ جو اتنے برس میں ہزاروں جانوں کی قربانی دے کر پاکستان سے مسلح تنظیموں کے اثرات ختم کئے گئے ہیں۔ وہ پھر ضائع ہو جائیں گے۔ اور ایک بار پھر بہت سے علاقے ان کی زد میں آجائیں گے۔ اور اب کی بار تو ان کی پشت پر ایک طاقتور جنگجو حکومت بھی ہوگی۔ سو انتقام کا جذبہ پہلے سے سوا ہوگا۔ اور پھر برسوں حالت جنگ میں رہنے والی قوم کو ایک بار پھر اسی دریا کا سامنا ہو گا۔ جسے اٹھارہ برسوں میں پار کیا ہے۔ پاکستان کا دوسرا خدشہ یہ ہے کہ خیبر پختون میں سی پیک کی گزرگاہیں ان گروہوں کی زد میں آسکتی ہیں۔ جو اپنے مطالبات منوانے کے لیے انہیں ڈسٹرب کر سکتے ہیں۔ یہ گویا حلق پر رکھی چھری کی طرح ایسی صورت حال ہو گی۔ جس سے بھارت یا کوئی بھی دشمن ملک فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ پاکستان کے خدشات کی فہرست خاصی طویل ہے۔ لیکن اس سے قطع نظر یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ اگر کابل پر ایک طاقتور اور مضبوط گرفت رکھنے والی حکومت نہ بنی تو افغانستان مستقل انتشار اور خانہ جنگی کا شکار رہے گا۔ اور اس کا براہ راست اثر پاکستان پر پڑے گا۔ یہ انتشار پاکستان کی سیاست۔ معیشت اور فوج کو مسلسل اپنی جانب متوجہ رکھے گا۔ اور افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان بھی کمزوری کا شکار رہے گا۔ اور سچی بات یہ ہے کہ امریکہ کو یہی مطلوب ہے۔ وہ خطے میں کمزور پاکستان اور کمزور افغانستان چھوڑ کر جانا چاہتا ہے۔ تاکہ مستقبل میں اس کے اور بھارت کے مفادات پر دبائو ڈالنے والی کوئی قوت سر نہ اٹھا سکے۔ اس سے امریکی انتقام بھی پورا ہو جائے گا۔ اس کے خدشات بھی ختم ہو جائیں گے۔ اور سی پیک کے ذریعے خطے میں معاشی خوش حالی کا خواب بھی ٹوٹ کر بکھر جائے گا۔ تب دونوں ملک اپنے اپنے انتشار کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہراتے رہیں گے۔ لیکن کابل پر اگر طالبان کی حکومت بن جاتی ہے تو اسے سی پیک کے ثمرات میں فوری طور پر شریک کرنا سی پیک کے لیے ضروری ہے۔ پاکستان اور چین مل کر افغانستان سے سی پیک کی گزرگاہیں تعمیر کرنے کا ایک گرینڈ پلان آگے بڑھا سکتے ہیں۔ جن سے جڑے صنعتی اور تجارتی زون افغانستان کو چند برس میں ایک طویل جست لگانے کے لیے تیار کر دیں گے۔ یوں سی پیک اور اس سے جڑے معاملات کی حفاظت کی ذمہ داری خود بخود طالبان حکومت کی ہو جائے گی۔ دوسری بات یہ کہ اس ایک اقدام سے فاٹا اور خیبر پختون میں حالات قابو رکھنے کے لیے افغان طالبان کی مدد بھی حاصل ہو جائے گی۔ واضح رہے کہ اسلام پسندوں کے ابھرنے اور آگے بڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر وہ پاکستان کی سلامتی۔ تحفظ اور امن کو یقینی بنانے میں مدد دیں۔ خطے میں ان کی طاقت ایک ناقابل تردید وجود ہے۔ اسے پاکستان کا
دشمن بنانے کے بجائے پاکستان کی طاقت بنا لینا چاہئے۔ تاکہ فوج کے بجائے پہلی ڈیفنس لائن یہ طاقت بن جائے۔ اس سے فوج کا بوجھ بھی ہلکا ہوگا۔ اور اس کی طاقت میں بھی اضافہ ہوگا۔ ویسے بھی اس ملک پر اسلام پسندوں کا حق روشن خیالوں سے زیادہ ہے۔ یہ ملک دو قومی نظریئے پر بنا تھا۔ جس کی بنیاد مذہب بنا تھا۔ پھر تحریک پاکستان کا بنیادی نعرہ ہی کلمہ طیبہ تھا۔ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کے نعرے پر برصغیر کے تمام مسلمان اکٹھے ہوئے اور تحریک پاکستان کو کمک فراہم کی۔ اسلام پسندوں کو قومی دھارے میں لانے کے لیے ان کے احساس محرومی کو دور کرنا ضروری ہے۔ اس احساس محرومی کی جڑیں معاشی بدحالی کے ساتھ ساتھ قانونی اور سماجی نا انصافی کی سیاہ زمین سے پھوٹتی ہیں۔ پھر مذہبی احترام کی حدود پامال کرنے کا حکومتی عزم اس احساس کو مزید پانی اور کھاد فراہم کرتا ہے۔ لال مسجد۔ متاثرین شمالی وزیرستان۔ گستاخان رسول اور رائو انوار اس کی چند مثالیں ہیں۔ جنہوں نے قومی معاشرے کو اتھل پتھل کر دیا۔ ضروری نہیں کہ اسلام پسند ہر معاملے میں غلط ہوں۔ اور ضروری نہیں کہ روشن خیال ہر معاملے میں درست ہوں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت اور ادارے اگر متفقہ مذہبی عقائد کا احترام کرانا ہی شروع کر دیں تو شاید معاشی اور سماجی ناانصافی بھی اوقات سے باہر نہیں ہوگی۔ اور لوگ اسے برداشت بھی کر لیں گے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مذہبی عقائد کے تحفظ کے لیے احتجاج کرنے والوں کو بلا تخصیص شرپسند۔ دہشت گرد۔ اور فسادی سمجھا جاتا ہے۔ تازہ مثال نبی پاکؐ کی حرمت کا معاملہ ہے۔ حکومت اور ادارے اگر آسیہ کیس میں تحریک لبیک کے رہنمائوں کو شروع سے آن بورڈ لے لیتے اور عدالت فیصلے جاری کرنے سے قبل معتبر اور مستند علما سے مشورہ کر لیتی تو اس سب کی نوبت ہی نہیں آتی۔ شعلہ فشاں مقررین کو آگے بڑھنے کا راستہ تبھی ملتا ہے۔ جب آپ اعتدال پسند علما کی بات سننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ پھر چاہے آپریشن کر کے کتنے ہی مولوی گرفتار کر لیں۔ مغرب کو۔ عالمی مالیاتی اداروں کو۔ امریکہ کو اطمینان کا گائو تکیہ فراہم کر دیں۔ اپنے معاشرے میں دراڑ آپ ڈال ہی دیتے ہیں۔ یہ دراڑ پھر خلفشار کو ہوا دیتی ہے۔ اور انتشار کی چنگاریاں مسلح خانہ جنگی کی آگ میں بدل جاتی ہیں۔ سو پروانے کے خون ناحق سے بچنا ہے تو شہد کی مکھی کو باغ میں جانے ہی نہ دیں۔