لائق تحسین و تقلید تقریب ِ نکاح:
سابق صدر پاکستان ضیاء الحق مرحومؒ کی صاحبزادی کے نکاح کا حال چشم دید، معتبر اور مستند وقائع نگار مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ یوں بیان فرماتے ہیں:
’’صدارت کے زمانے میں جب مرحوم (ضیاء الحق) کی پہلی صاحبزادی کا نکاح ہوا تو جناب مولانا ظفر احمد صاحب انصاریؒ کے ذریعے حضرت (مفتی صاحب کے شیخ ڈاکٹر عبد الحئی عارفیؒ) کی خدمت میں پیغام بھجوایا کہ ’’میرا نکاح حضرت مفتی محمد حسن صاحب نے پڑھایا تھا۔ میرے بھائی کا نکاح حضرت مفتی محمد شفیع صاحب نے پڑھایا اور اب میری خواہش ہے کہ میری لڑکی کا نکاح بھی حضرت تھانویؒ ہی کے کوئی خلیفہ پڑھائیں، اس لیے اگر کوئی امر مانع نہ ہو تو حضرت نکاح پڑھانے کو منظور فرما لیں۔‘‘
حضرت ڈاکٹر صاحبؒ نے فرمایا کہ ’’اتنی ساری نسبتوں کے بعد میں کیسے انکار کر دوں؟‘‘
چنانچہ حضرت نے نکاح پڑھانا منظور فرما لیا۔ اس سفر میں برادر محترم حضرت مولانا محمد رفیع عثمانی صاحب مدظلہم اور احقر کو بھی حضرت کی ہم رکابی کا شرف حاصل ہوا۔ جب طیارہ راولپنڈی پہنچا تو صدر محترم خود پروٹوکول اور سیکورٹی کے انتظامات سے بے نیاز جہاز کی سیڑھیوں پر حضرت کے استقبال کے لیے موجود تھے اور حضرت کی تشریف آوری پر احسان مندی کے جذبات سے بچھے جاتے تھے۔
جہاز ہی سے حضرت کو گاڑی میں بٹھا کر روانہ ہوئے۔ راستے میں مختلف باتوں کے دوران عرض کیا کہ ’’حضرت میرا دل تو یہ چاہتا تھا کہ آپ میرے گھر پر قیام فرمائیں، (مرحوم صدارت کے زمانے میں بھی ایوان صدر کے بجائے اپنے آرمی ہائوس میں آخر تک قیام پذیر رہے) لیکن پھر میں نے آپ کے قیام کے لیے ایوان صدر کو اس لیے ترجیح دی کہ اس کو برکت حاصل ہو۔‘‘
یہ کہہ کر حضرت کو ایوان صدر میں ٹھہرایا اور یہ کہہ کر چلے گئے کہ ’’سفر میں تعب (تھکاوٹ) ہوگیا ہوگا، آپ کچھ دیر آرام فرما لیں، عشاء کے بعد میں آ کر نکاح کیلئے آپ کو لے جائوں گا۔‘‘
عشاء کے بعد صدر صاحب پھر آئے اور حضرت کو اپنے مکان پر لے گئے، جہاں نکاح ہونا تھا۔ نکاح کی مجلس ان کے ڈرائنگ روم میں منعقد ہوئی۔ وہاں صوفے ہٹا کر فرشی نشست کا انتظام کیا گیا۔ نکاح کی مجلس انتہائی سادہ اور مختصر تھی، مشکل سے بیس پچیس آدمی ہوں گے، جن میں گھر کے افراد کے علاوہ ملتان میں حضرت تھانوی قدس سرہ کے خلیفہ حضرت حاجی محمد شریف صاحبؒ، جناب مولانا ظفر احمد انصاریؒ، دو تین علمائ، دو تین وزراء اور فوج کے چند اعلیٰ افسران شامل تھے۔
دو گائو تکیوں پر حضرت ڈاکٹر صاحبؒ اور حضرت حاجی صاحبؒ تشریف فرما تھے اور سامنے باقی لوگ بیٹھے تھے۔ صدر مرحوم انہی لوگوں کے درمیان ایک عام آدمی کی طرح باادب بیٹھے رہے۔ نکاح کے بعد ڈاکٹر صاحبؒ نے اپنی عادت کے مطابق نصیحتیں شروع فرما دیں اور تقریباً گھنٹہ بھر تک یہ محفل حضرت کی مجلس ارشاد میں تبدیل ہوگئی۔
اسی دوران اسی کمرے میں فرش پر کھانے کے لیے دسترخوان بچھائے گئے، وہیں پر کھانا ہوا، کھانے کے بعد پھر حضرتؒ کے مواعظ کا سلسلہ جاری رہا۔ (نقوش رفتگاں 280، 281)
یہ داستان نکاح کسی مولوی صوفی کی نہیں، کسی معمولی دنیا دار، منسٹر وزیر کی نہیں، کسی تنظیم، پارٹی کے صدر کی بھی نہیں بلکہ ایک ملک کے حکمراں کی صاحبزادی کی نکاح کی داستان ہے۔ یہ واقعہ خیر القرون اور اس کے بعد کی صدیوں کا بھی نہیں، بلکہ صرف چند دہائی قبل کا ہے۔
شاہ عبد القدوسؒ کی اہلیہ:
حضرت شاہ عبد القدوسؒ کی بی بی ان کے پیر کی لڑکی تھیں، ان کی ساس کو کتنا ہی لوگوں نے کہا کہ بائولے سے نکاح کرواتی ہو۔ انہوں نے یہی کہا کہ مجھ کو بائولا ہی پسند ہے، سلاطین اور امرا خواستگار تھے۔ ان سے شادی نہیں کروائی اور ایک ایسے شخص سے لاڈلی بیٹی کا نکاح کرادیا، جسے لوگ بائولا کہتے تھے۔ (مواعظ اشرفیہ فضائل صوم و صلوٰۃ ص 115)
(جاری ہے)
(باقی صفحہ 4بقیہ نمبر6)