عمر بن ہبیرہ کو نصیحت:
حضرت حسن بصریؒ کا جابر و ظالم حکمرانوں کے ساتھ کئی مرتبہ اسی طرح کا واسطہ پڑا، لیکن آپ ہر مرتبہ خدا کے فضل و کرم سے حکمرانوں کی نگاہ میں محترم ہوکر ان کے دلوں کو اپنی عظمت و ہیبت سے متاثر کر کے واپس لوٹے۔
اسی قسم کا ایک حیرت انگیز واقعہ اس وقت پیش آیا، جب خدا ترس انصاف پسند، سادہ طبیعت اور پاکیزہ فطرت مسلمانوں کے خلیفہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی وفات کے بعد، یزید بن عبد الملک کو خلیفہ بنایا گیا۔ اس نے عراق کا گورنر عمر بن ہبیرہ فزاری کو مقرر کیا، پھر اس کے اختیارات میں اضافہ کر کے خراسان کا علاقہ بھی اس کے حوالے کر دیا۔
یزید بن عبد الملک نے حکومت سنبھالتے ہی ایسا طرز عمل اختیار کیا، جو پچھلے نیک خلفاء کے طرز عمل کے بالکل خلاف تھا۔
وہ اپنے گورنر عمر بن ہبیرہ کو کثرت سے خط لکھتا اور ان خطوط میں ایسے احکامات جاری کرتا، جو بعض اوقات حق کے خلاف ہوتے اور انہیں فوری طور پر نافذ کرنے کا حکم دیتا۔
ایک دن عمر ہبیرہ نے حضرت حسن بصریؒ اور حضرت عامر بن شراحیلؒ کو مشورے کے لیے بلایا اور عرض کیا:
امیر المومنین یزید بن عبد الملک کو حق تعالیٰ نے خلافت عطا کی ہے اور جیسا کہ آپ کو معلوم ہے، اس نے مجھے عراق و ایران کا گورنر مقرر کیا ہے، کبھی کبھی وہ مجھے ایسے سرکاری خطوط ارسال کرتا ہے، جن میں بعض ایسے اقدامات کرنے کا حکم ہوتا ہے، جو میرے نزدیک انصاف کے مطابق نہیں ہوتے، کیا ایسے احکامات پر عمل کرنے کرانے کا دینی لحاظ سے میرے لیے کوئی جواز نکلتا ہے؟
حضرت عامر بن شراحیلؒ نے ایسا جواب دیا، جس میں خلیفہ کے لیے نرم رویہ اور گورنر کو خوش کرنے کا انداز پایا جاتا تھا، لیکن حضرت حسن بصریؒ خاموش بیٹھے رہے۔
گورنر عمر بن ہبیرہ نے حسن بصریؒ کی طرف دیکھا اور کہا: ابو سعید آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
آپؒ نے فرمایا: ’’اے ابن ہبیرہ! ہو سکتا ہے کہ آسمان سے ایک ایسا سخت مزاج فرشتہ نازل ہو، جو حق تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی بالکل نہیں کرتا، وہ تجھے تخت سے اٹھا کر اس محل کی وسعت سے نکال کر ایک تنگ و تاریک قبر میں ڈال دے، وہاں تو یزید بن عبد الملک کو نہیں دیکھ سکے گا، وہاں تجھے وہ عمل ملے گا، جس میں تو نے اپنے اور یزید کے رب کے مخالفت کی تھی۔‘‘
اے ابن ہبیرہ! اگر تو حق تعالیٰ کا ہو جائے اور ہر دم اس کی اطاعت میں سرگرم رہے، تو وہ تجھے یقیناً دنیا و آخرت میں یزید کے شر سے محفوظ رکھے گا اور اگر تو رب تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے یزید کا ساتھ دے گا تو رب تعالیٰ بھی تجھے یزید کے ظلم و ستم کے حوالے کر دے گا۔
اے ابن ہبیرہ! خوب اچھی طرح جان لو مخلوق میں خواہ کوئی بھی ہو اس کا وہ حکم نہیں مانا جائے گا جس میں خدا تعالیٰ کی نافرمانی پائی جاتی ہو۔ یہ باتیں سن کر ابن ہبیرہ اتنا روئے کہ آنسوؤں سے ان کی داڑھی تر ہوگئی، پھر وہ حضرت عامر بن شراحیل شعبیؒ کو چھوڑ کر حضرت حسن بصریؒ کی طرف مائل ہوئے اور بہت زیادہ ان کے ساتھ عزت و اکرام سے پیش آئے۔
جب دونوں بزرگ گورنر کی ملاقات سے فارغ ہوکر مسجد میں پہنچے تو لوگ ان کے اردگرد جمع ہوگئے اور ان سے گورنر کے ساتھ ہونے والی باتیں معلوم کرنے لگے۔ حضرت عامرؒ نے لوگوں سے کہا:
لوگو! ہمیں ہر حال میں خدا سبحانہ وتعالیٰ کو مخلوق پر ترجیح دینی چاہئے، مجھے قسم ہے اس ذات کی، جس کے قبضے میں
میری جان ہے، آج حسن بصریؒ نے گورنر عمر بن ہبیرہ کو کوئی ایسی بات نہیں کہی، جسے میں نہ جانتا ہوں۔ لیکن میں نے اپنی گفتگو میں گورنر کی مرضی کا لحاظ رکھا اور حسن بصریؒ نے اپنی گفتگو میں حق تعالیٰ کی رضا کو پیش نظر رکھا، باری تعالیٰ نے مجھے گورنر کی نظروں میں گرادیا اور حسن بصریؒ کو اس کی نگاہوں میں محبوب بنا دیا۔(جاری ہے)
(باقی صفحہ 4بقیہ نمبر7)